کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 271
اہل میت کے لیے کھاناتیار کرکے ان کی طرف بھیجنا مستحب ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اصْنَعُوا لِأَهْلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ" "جعفر( رضی اللہ عنہ ) کے خاندان کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان پر ایسی مصیبت آگئی ہے جس نے انھیں مشغول کردیا ہے۔"[1] آج کل دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ،یعنی میت کے لواحقین اپنے ہاں لوگوں کو ایک جگہ بلاتے اور جمع کرلیتے ہیں۔ان کے لیے کھانا تیار کرتے ہیں،پھر ایصال ثواب کی خاطر قاریوں کواجرت دے کر ان سے قرآن مجید پڑھواتے ہیں اور اس موقع پر اچھا خاصا مالی بوجھ اٹھاتے ہیں،یہ تمام کام سراسر حرام اور بدعت ہیں،چنانچہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: "كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنِيعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنَ النِّيَاحَةِ " "ہم میت کو دفن کرنے کے بعد میت والوں کے ہاں جمع ہونے اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ میں شمار کرتے تھے۔"[2] اس روایت کے راوی ثقہ ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"میت کے لواحقین کالوگوں کو کھانے پر جمع کرنا،ان سے تلاوت کروانا اور پھر انھیں تحائف دینایہ عمل سلف صالحین کے ہاں معلوم ومعروف نہ تھا بلکہ اہل علم نے متعدد وجوہ کی بنا پر اسے مکروہ قراردیا ہے۔" علامہ طرطوشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"علمائے کرام کااس امر پر اجماع ہے کہ تعزیتی اجلاس منعقد کرنا اور مصیبت کے وقت اجتماع کرنا ممنوع ہے جو نہایت قبیح بدعت ہے۔اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی منقول نہیں۔اسی طرح دوسرے،تیسرے،چوتھے ،ساتویں روز یاماہانہ محفل کا اہتمام وانعقاد کرنایاسالانہ برسی،عرس منعقد کرنا،اس کا قطعاً کوئی شرعی ثبوت نہیں۔اگریہ خرچ میت کے ترکہ میں سے ہو اور میت کا کوئی وارث اپنے مال میں تصرف کرنے کااہل نہ ہو(مثلاً:نابالغ بچہ) یا ان میں سے کسی ایک نے اجازت نہ دی ہو تو یہ خرچ حرام ہے اور اسی طرح کا کھانا کھانا بھی حرام ہے۔"
[1] ۔جامع الترمذی، الجنائز، باب ماجاء فی الطعام یصنع لاھل المیت ،حدیث 998 ومسند احمد 1/205 ۔ [2] ۔مسند احمد 2/204۔