کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 270
واضح رہے تعظیم کی خاطر قبروں پر عمارات کی تعمیر وغیر دنیا میں پائے جانے والے شرک کی ایک بنیاد اور اصل سبب ہے۔ قبروں پر چلنا، انھیں جوتوں سے پامال کرنا ،ان پر بیٹھنا، ان پر کوڑا کرکٹ پھینکنا یا پانی کا نکاس ان کی طرف کر دینا ،یہ قبروں کی توہین ہے جو حرام ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لأَنْ يَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلَى جَمْرَةٍ فَتُحْرِقَ ثِيَابَهُ، فَتَخْلُصَ إِلَى جِلْدِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَجْلِسَ عَلَى قَبْرٍ" "کوئی شخص آگ کے انگاروں پر بیٹھ جائے جس سے اس کے کپڑے جل جائیں حتی کہ آگ کا اثر اس کی جسمانی جلد کو پہنچ جائے تو یہ تکلیف اس کے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔"[1] امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’جو شخص قبروں پر بیٹھنے، ان پر تکیہ لگانے، انھیں پامال کی ممانعت روایات پر غور و تدبر کرے گا اسے معلوم ہوگا کہ یہ جملہ امور اہل قبور کے احترام کی خاطر ہیں تاکہ ان کے سروں کو جوتوں کے ساتھ روندا نہ جائے۔‘‘ [2] تعزیت اور زیارت قبور کے احکام میت کے لواحقین سے تعزیت کرنا،انھیں صبر کی تلقین کرنا اور میت کے لیے دعا کرنا مستحب ہے ،سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يُعَزِّي أَخَاهُ بِمُصِيبَةٍ إِلَّا كَسَاهُ اللّٰهُ سُبْحَانَهُ مِنْ حُلَلِ الْكَرَامَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" "جو مومن شخص اپنےبھائی کے ساتھ اس کی مصیبت کے وقت تعزیت کرے گا اللہ تعالیٰ روزقیامت اسے عزت کالباس پہنائے گا۔"[3] اس مضمون کی اور بھی روایات ہیں۔ (1)۔کلمات تعزیت اس قسم کے کہے جائیں کہ جن کا مفہوم یہ ہو:"اللہ تعالیٰ تمھیں اس مصیبت پر اجر عظیم دے اور صبرجمیل کی توفیق دے اور تمہارے فوت شدہ کو معاف فرمائے۔" (2)۔تعزیت کے لیے بیٹھنے کااہتمام کرنا اور اس کااعلان کرنا(جیسا کہ آج کل رواج ہے) شرعاً درست نہیں۔
[1] ۔صحیح مسلم، الجنائز باب النھی عن الجلوس علی القبر والصلاۃ علیہ ،حدیث:971۔ [2] ۔حاشیہ ابن القیم 9/37۔ [3] ۔(ضعیف) سنن ابن ماجہ الجنائز باب ماجاء فی ثواب من عزی مصابا ،حدیث 1601 وارواء الغلیل 3/216 حدیث 764۔