کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 266
چار ماہ سے کم عمر ہو تو اس مردہ بچے کو نماز جنازہ پڑھے بغیر ہی دفن کر دیا جائے۔[1] میت کو قبرستان لے جانا اور دفن کرنا : میت کو کندھا دینا اور اسے دفن کرنا مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے۔ میت کو دفن کرنا کتاب و سنت سے ثابت ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا (25) أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا" "کیا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی نہیں بنایا؟ زندوں کو بھی اور مردوں کو بھی ۔"[2] نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:"ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ" "پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں دفن کیا۔"[3] میت کو دفن کرنے کے بارے میں وارد احادیث بہت زیادہ ہیں اور معروف ہیں، علاوہ ازیں یہ عمل نیکی اور بھلائی کا ہے اور اس میں میت کا احترام کرنا اور اس کا خیال رکھنا پایا جاتا ہے۔ جنازے کے جلوس میں شامل ہونا اور اسے قبر تک پہنچانا مسنون عمل ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "مَنْ شَهِدَ الْجِنَازَةَ حَتَّى يُصَلَّى فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كان لَهُ قِيرَاطَانِ ، قِيلَ: وَمَا الْقِيرَاطَانِ؟ قَالَ: ((مِثْلُ الْجَبَلَيْنِ الْعَظِيمَيْنِ))" "جو شخص نماز جنازہ کی ادائیگی تک جنازے میں شریک رہا ،اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے اور جو شخص دفن کرتے وقت تک شریک رہا اس کے لیے دو قیراط اجر ہے۔ پوچھا گیا قیراط کیا ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:دو عظیم پہاڑوں کے برابر۔"[4] اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سی روایات میں میت کو قبر تک الوداع کرنے کی تلقین و ترغیب ہے۔ جو شخص جنازے کے ساتھ جائے اس کے لیے مسنون یہ ہے کہ وہ حتی الامکان میت کو کندھا دینے والوں میں شامل ہو۔ میت کو کسی جانور یا گاڑی پر لے جانے میں کوئی حرج نہیں بالخصوص جب قبر ستان دور ہو۔ میت کا جنازہ لے جاتے ہوئے مناسب حد تک تیز چلنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ ، فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا ، وَإِنْ تَكُ سِوَى ذَلِكَ فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ"
[1] ۔المغنی والشرح الکبیر 2/393۔حدیث میں ناتمام بچے (سقط) کے نماز جنازہ کی مشروعیت ثابت ہے۔ دیکھیے: احکام الجنائز للالبانی ص:104(ع۔و) [2] ۔المرسلت:26۔25۔ [3] ۔عبس 21:80۔ [4] صحیح البخاری ،الجنائز،باب من انتظر حتی تدفن ،حدیث:1325۔وصحیح مسلم الجنائز باب فضل الصلاۃ علی الجنائز واتباعھا حدیث:945۔