کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 260
پر ایمان نہ لاؤ ،ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے بغض و عداوت ظاہر ہو گئی۔"[1] اور فرمایا: "لَّاتَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ " "اللہ(تعالیٰ( پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہر گز نہ پائیں گے گووہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کا کنبہ قبیلہ ہی کیوں نہ ہو۔"[2] درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر اور ایمان دونوں باہم متضاد ہیں ،کفار سے دشمنی محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین کی خاطر ہے ،اس لیے وہ زندہ ہوں یا مردہ ،ان سے دوستی اور محبت قطعاً جائز نہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں کو حق پر قائم رکھے اور ہمیں راہ راست کی ہدایت دے۔ جس پانی سے میت کو غسل دینا ہو وہ پاک صاف اور ٹھنڈا ہونا چاہیے ،البتہ میت کے جسم سے اگر میل کچیل اتارنا مقصود ہو یا سخت سردی ہو تو گرم کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ میت کو غسل ایسی جگہ دینا چاہیے جو نظروں سے محفوظ ہو یا کسی گھر میں چھت کے نیچے ہو یا کسی خیمہ وغیرہ کے اندر ہو۔ غسل دینے سے قبل میت کی ناف سے لے کر گھٹنوں تک جسم کو کسی کپڑے سے ڈھانپ کر رکھنا ضروری ہے۔پھر اس کے کپڑے اتارے جائیں اور غسل کے تختے پر لٹایا جائے جو پاؤں کی جانب سے قدرے نیچا ہوتا کہ جسم کا میل کچیل اور مستعمل پانی پاؤں کی طرف سے بہہ جائے۔ غسل کے مقام پر غسل دینے والا یا غسل میں تعاون کرنے والا ہی موجود ہو۔ وہاں زائد افراد کی موجودگی درست نہیں۔ طریقہ غسل غسل دینے والا شخص اولاً میت کا سر اس قدر اٹھائے کہ وہ بیٹھنے کی حالت کے قریب ہو جائے، پھر اس کے پیٹ پر آہستہ آہستہ اور دبا کر ہاتھ پھیرے تاکہ جسم سے نکلنے والی نجاست نکل جائے اور ساتھ ساتھ پانی بھی خوب بہائے تاکہ وہاں نجاست ٹھہرنہ سکے۔پھر غسل دینے والا اپنے ہاتھوں پر سوتی وغیرہ کپڑے کی تھیلیاں چڑھا کر میت کو استنجا ء کروائے۔
[1] ۔الممتحنہ60۔4۔ [2] ۔المجادلہ:22۔