کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 26
مزید فرمایا: "وَيُنَـزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ" اور آسمان سے تم پر بارش برسا رہا تھا تاکہ تمھیں اس کے ذریعے سے پاک کردے۔"[1] یہ امر اسلام کی عظمت کی دلیل ہے جو انسان کو حسی اور معنوی نجاست سے پاک و صاف رکھنے والا دین ہے۔اسی طرح یہ امر نماز کی عظمت کا بھی شاہد ہے کیونکہ نماز کی ادائیگی دونوں قسم کی طہارت حاصل کیے بغیر ممکن نہیں۔ واضح رہے کہ معنوی طہارت سے مراد شرک سے پاک ہونا ہے جو عقیدہ توحید اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص کی بدولت میسر ہوتی ہے۔ اور طہارت حسی سے مراد حدث و نجاست سے پاک وصاف ہونا ہے جو پانی یا اس کے قائم مقام مٹی سے حاصل ہوتی ہے۔ جان لیجیے! جب پانی اپنی قدرتی حالت میں ہو اور اس میں کوئی چیز گرنہ جائے تو ایسا پانی بالا جماع پاک ہے اور اگر پانی میں نجاست گر جائے جس کی وجہ سے اس کی تین صفات (بو،ذائقہ اور رنگت )میں سے کوئی ایک صفت بدل گئی ہوتو یہ پانی بالاجماع ناپاک ہے جس کا استعمال ناجائز ہے۔ اگر پانی میں کوئی پاک چیز گرجائے مثلاً:درختوں کے پتے صابن اور اشنان وغیرہ نیز اس چیز کا پانی پر غلبہ نہ ہوتو ایسے پانی سے تعلق اہل علم میں اختلاف ہے صحیح بات یہ ہے کہ ایسا پانی پاک ہے اور اس سے حدث و نجاست زائل کر کے طہارت وپاکیزگی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ پانی کی دو قسمیں ہیں: 1۔پاک پانی جس سے طہارت حاصل کرنا درست ہے۔ یہ وہ قسم ہے جو اپنی فطری اور قدرتی حالت میں ہو یا اس میں کسی پاک چیز کی ملاوٹ ہوگئی ہو۔ بشرطیکہ اس چیز کا ایسا غلبہ نہ ہو کہ اس مرکب کو پانی کانام نہ دیا جا سکے۔ 2۔ناپاک پانی جس کا استعمال جائز نہیں۔ وہ نہ حدث کو ختم کرتا ہے اور نہ نجاست دور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ ایسا پانی ہے جو نجاست گر جانے کی وجہ سے متغیر ہو گیا۔ واللہ اعلم۔ برتنوں اور کافروں کے کپڑوں کے احکام یہاں برتنوں سے مراد ایسے برتن ہیں جو کھانے اور پانی وغیرہ کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، وہ
[1] ۔الانفال:8/11۔