کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 258
کسی خاص شخص کو وصیت کی ہو تو اسے غسل دینے کا موقع دیا جائے، بشرطیکہ وہ اچھا اور قابل اعتماد ہو جیسا کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ انھیں ان کی بیوی سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا غسل دے۔[1] واضح رہے اس روایت سے بیوی کا خاوند کو غسل دینے کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی فوت شدہ بیوی کو غسل دے (جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیاتھا)۔[2]سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ بعد از وفات انھیں محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ غسل دیں۔[3] اگر میت نے کسی خاص شخص کے بارے میں وصیت نہ کی ہو تو میت کا باپ غسل دے، بیٹے کو غسل دینے کے لیے باپ زیادہ مناسب اور بہتر ہے کیونکہ باپ اپنے بیٹے پر زیادہ شفیق و رحیم ہوتا ہے۔ اگر بوقت وفات باپ موجودیا زندہ نہ ہو تو میت کا دادا باپ کے قائم مقام سمجھا جاتا ہے، لہٰذا وہ غسل دے۔ پھر عصبات، یعنی بھائی چچا وغیرہ پر یہ فرض عائدہوتا ہے۔اگر یہ سب نہ ہوں یا انکار کر دیں یا انھیں طریقہ غسل نہ آتا ہو تو پھر کسی بھی اجنبی شخص سے یہ کام لیا جا سکتا ہے جو طریقہ غسل سے واقف ہو۔ میت عورت ہو تو اسے عورت ہی غسل دے، بہتر یہ ہے کہ جس متعین عورت کے بارے میں وصیت کی گئی ہو وہ غسل دے بشرطیکہ وہ طریقہ غسل کا علم رکھتی ہو۔ ورنہ میت اقرباء میں سے کوئی بھی عورت غسل دے سکتی ہے جو احکام غسل جانتی اور سمجھتی ہو۔ عورت، عورت کو اور مرد،مرد کو مذکورہ ترتیب کے مطابق غسل دے۔ خاوند یا بیوی میں سے کوئی ایک فوت ہو جائے تو دوسرا اسے غسل دے سکتا ہے جیسا کہ سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے غسل دیا یا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے غسل دیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں (اس کے علاوہ )اور بھی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ سات برس سے کم عمر والا فوت شدہ بچہ ہو یا بچی ،اسے مرد یا عورت کوئی بھی غسل دے سکتا ہے۔ ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے کہ عورت چھوٹے بچے کو نہلا سکتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹے بچے کا اس کی زندگی میں بھی ستر کا مسئلہ نہیں ہوتا۔[4] نیز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم علیہ السلام کا انتقال ہوا تھا تو عورتوں ہی نے اسے غسل دیا تھا۔[5] سات برس یا اس سے زائد کے بچے کو عورت غسل نہ دے۔ اسی طرح سات برس یا اس سے زیادہ عمر کی بچی کو
[1] ۔(ضعیف) الموطا للامام مالک، الجنائز ،باب غسل المیت ،حدیث3والمغنی والشرح الکبیر 2/308۔311۔وارواء الغلیل ،حدیث 696۔ [2] ۔المستدرک للحاکم ، معرفة الصحا بۃ 3/163۔164۔حدیث 4769۔ [3] ۔المغنی والشرح الکبیر 2/308۔قال الشیخ الالبانی: لم اقف علی اسنادہ، ارواءالغلیل حدیث 697۔ [4] ۔المغنی والشرح الکبیر 2/313۔ [5] ۔منار السبیل ص:147۔قال الشیخ الالبانی رحمۃ اللّٰه علیہ فی ارواء الغلیل 3/163۔لم اقف علیہ۔