کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 254
حالت صحت میں بھی ہونی چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ ، لَهُ شَيْءٌ يُوصي فِيهِ ، يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ "
"ہر مسلمان شخص کا حق ہے کہ اگر وہ کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو دوراتیں بھی نہ گزرنے دے، مگر اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی محفوظ ہونی چاہیے۔[1]
واضح رہے ،حدیث میں دو راتوں کا ذکر بطور تاکید کے ہے، یہ کوئی حد بندی نہیں ۔مطلب یہ ہے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہونی چاہیے کیونکہ کوئی پتہ نہیں کہ موت کا وقت کب آجائے۔
بیمار شخص اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسن ظن رکھے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي"
"میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق رویہ اختیار کرتا ہوں۔"[2]
جب کسی بندے کو اپنے خالق کے پاس جانے کا احساس ہو جائے تب اس "حسن ظن " کی زیادہ ہی ضرورت ہے ۔
جو شخص قریب الوفات ہواسے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید دلائی جائے حتی کہ اللہ تعالیٰ سے امید کا پہلو خوف کے پہلو پر غالب آجائے، البتہ حالت صحت میں امید اور خوف کے دونوں پہلو مساوی رہنے چاہئیں کیونکہ اگر خوف کا پہلو غالب ہو گا تو وہ مایوس ہو جائے گا اور اگر امید کا پہلو غالب ہو گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی اچانک آجانے والی سزا سے بے خوف ہو جائے گا۔
جب کوئی قریب الوفات ہو تو اسے "لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ"پڑھنے کی تلقین کرنے چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ"
"اپنے فوت ہونے والوں کو" لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ "کی تلقین کرو۔[3]
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی موت کلمہ اخلاص پر واقع ہوجائے اور یہ کلمہ اس کی دنیوی زندگی کا آخری کلمہ ہو ۔
[1] ۔صحیح البخاری ،کتاب و باب الوصایا ،حدیث 2738۔وصحیح مسلم ،الوصیہ، باب وصیۃ الرجل مکتوبۃ عندہ ،حدیث 1627۔
[2] ۔صحیح البخاری ،التوحید ،باب قول اللّٰه تعالیٰ: "وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ" حدیث 7405۔وصحیح مسلم ،الذکر والدعاء والتوبہ، باب فضل الذکرو الدعاء ،حدیث 2675۔
[3] ۔صحیح مسلم ،الجنائز، باب تلقین الموتی لاالہ الا اللّٰه ،حدیث۔916۔