کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 252
والا ہے۔"[1] جائز ادویات کے ذریعے علاج کروانے میں حرج نہیں بلکہ بعض علماء تو اسے ضروری قرار دیتے ہیں ،حتی کہ وہ اس کے وجوب کے قائل ہیں۔ علاج و معالجہ کا حکم بہت سی احادیث میں بھی مذکور ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علاج تو کل علی اللہ کے منافی نہیں جیسا کہ بھوک پیاس دور کرنے کے لیے کھانا پینا تو کل کے خلاف نہیں۔ حرام اشیاء کے ذریعے سے علاج کروانا قطعاً جائز نہیں کیونکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نشہ آور شے کے بارے میں فرمایا: "إنَّ اللّٰهَ لَمْ يَجْعَلْ شِفَاءَكُمْ فِيمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ " "اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کردہ اشیاء میں تمہارے لیے شفا نہیں رکھی ۔"[2] سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِنَّ اللّٰهَ أَنْزَلَ الدَّاءَ وَالدَّوَاءَ وَجَعَلَ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءً ، فَتَدَاوَوْا وَلاَ تَدَاوَوْا بِحَرَامٍ " "اللہ تعالیٰ نے بیماری اور دوا نازل کی اور ہر دوا مقرر کی ہے، لہٰذا تم علاج کرو لیکن تم حرام چیزوں کے ساتھ علاج نہ کرو۔"[3] صحیح مسلم میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب سے متعلق فرمایا: "إِنَّهُ لَيْسَ بِدَوَاءٍ وَلَكِنَّهُ دَاءٌ""یہ دوانہیں بلکہ بیماری ہے۔"[4] ایسی اشیاء سے علاج کروانا جو عقیدہ اسلام کے منافی ہوں، قطعاً حرام ہے، مثلاً: شرکیہ یا مجہول الفاظ پر مشتمل تعویز لٹکانایا منکے دھاگے کا استعمال کرنا گلے میں میں مختلف اشیاء کے ہار ڈالنا ،بازو کلائی میں کڑے وغیرہ پہننا اور اس سے شفا کا عقیدہ رکھنا نظر و بلا کے لیے دافع سمجھنا، سب کام حرام ہیں کیونکہ اس میں حصول نفع اور ازالہ ضرر کے لیے انسان کے دل کا تعلق اللہ تعالیٰ کی بجائے غیر اللہ کی طرف ہو جاتا ہے، لہٰذا یہ تمام کام شرک ہیں یا شرک کے وسائل اور ذرائع ہیں۔ نیز کاہنوں، نجومیوں ، جادو گروں اور جنوں سے خدمت لینے والوں کے ذریعے سے علاج کروانا بھی حرام ہے۔ ایک مسلمان کا عقیدہ اس کی صحت سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء
[1] ۔الانبیاء 21۔83۔ [2] ۔رواہ البخاری معلقا ،الاشربہ، باب شراب الحلواء والعسل ،قبل حدیث 5641۔ [3] ۔(ضعیف) الاسناد، سنن ابی داؤد، الطب، باب فی الادویۃ المکروھۃ ،حدیث 3874۔ [4] ۔صحیح مسلم، الاشربہ، باب تحریم التداوی بالخمروبیان انھا لیست بدوا ء ،حدیث 1984۔