کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 239
تکبیریں پڑھتے تھے۔"[1] ایک اور روایت میں ہے: "كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الصُّبْحَ مِنْ غَدَاةِ عَرَفَةَ يُقْبِلُ عَلَى أَصْحَابِهِ فَيَقُولُ: ((عَلَى مَكَانِكُمْ))، وَيَقُولُ: ((اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ، اللّٰهُ أَكْبَرُ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ" "رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عرفہ کی صبح کو نماز پڑھاتے،پھر ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوکرفرماتے:"اپنی جگہ پر بیٹھے رہو۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہنی شروع کرتے: "اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ، اللّٰهُ أَكْبَرُ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ"[2] اور اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ " "اور گنتی کے چند دنوں میں تم اللہ کو یاد کرو۔"[3] ان ایام سے مراد"ایام تشریق" ہیں۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" یہی بات راجح ہے اور اسی پر مسلمانوں کاعمل رہا ہے۔" شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"تکبیرات کے بارے زیادہ درست قول یہی ہے کہ یوم عرفہ کی فجر سے لے کر آخر ایام تشریق(تیرہ ذوالحجہ) کی عصر تک ہرفرض نماز کے بعد تکبیریں کہی جائیں۔جمہور سلف اور فقہاء صحابہ کا یہی موقف ہے۔[4] سنن میں روایت ہے:"یوم عرفہ،یوم النحر اور منیٰ کے ایام ہمارے اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔[5]"اور ایک روایت کے لفظ ہیں:"اللہ کے ذکر کےدن ہیں۔"[6] اورمُحرم آدمی یوم النحر کی ظہر کے بعد یہ تکبیریں کہےگا کیونکہ تلبیہ جمرہ عقبہ کی رمی کےبعد ختم ہوتا ہے،جبکہ رمی کامسنون وقت چاشت کا وقت ہوتا ہے تو محرم اس وقت میں حلال آدمی کی طرح ہے۔اگر فجر سے قبل جمرہ عقبہ کی رمی کردی تو بھی
[1] ۔(ضعیف) سنن الدارقطنی العیدین 2/48 حدیث 1719۔ [2] ۔(ضعیف) سنن الدارقطنی العیدین 2/49 حدیث 1721۔ [3] ۔البقرۃ:2/203۔ [4] ۔مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ 24/220۔ [5] ۔جامع الترمذی الصوم باب ماجاء فی کراھیۃ صوم ایام التشریق حدیث 773 وسنن ابی داود الصیام باب صیام ایام التشریق حدیث 2419 وسنن النسائی ،المناسک، باب النھی عن صوم یوم عرفۃ، حدیث 3007۔ [6] ۔سنن ابی داود، الضحایا ،باب حبس لحوم الاضاحی ،حدیث 2813۔