کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 238
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
"كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ۔۔۔۔ حَتَّى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ"
"ہمیں حکم ہوتا کہ ہم عید کے دن نکلیں۔۔۔یہاں تک کہ حیض والی عورتوں کو بھی عید گاہ لائیں اور وہ (خواتین) مردوں کےپیچھے رہیں اور ان کی طرح تکبیریں کہیں۔"[1]
شعائر اسلام کے اظہار کی خاطر تکبیر بلند آواز سے کہنا مستحب ہے۔
عیدالفطر کے دن تکبیریں کہنے کی نہایت تاکید ہے کیونکہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:
"وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ "
"تاکہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔"[2]
(21)۔عید الاضحیٰ کے موقع پر باجماعت فرض نماز ادا کرنے کے بعد امام اورمقتدی بآواز بلند تکبیریں پڑھیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کے روز(9ذوالحجہ) کو جب صبح کی نماز ادا کرتے تو اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوتے اور کہتے:" اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ، اللّٰهُ أَكْبَرُ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ "[3]
فرض نماز کے بعد تکبیرات غیرحاجی کے لیے نویں ذوالحجہ کی فجر سے لے کر ایام تشریق تیرہویں ذوالحجہ کی عصر تک ہیں۔حاجی کے لیے یہ تکبیریں یوم النحر(عیدکے دن)کی ظہر سے ایام تشریق(تیرہویں ذوالحجہ) کی عصرتک ہیں کیونکہ یوم النحر سے پہلے وہ تلبیہ میں مصروف ہوتا ہے۔
امام دارقطنی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں:
"كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ حِينَ يُسَلِّمُ مِنْ الْمَكْتُوبَاتِ"
"رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) عرفہ کی صبح سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی عصر تک جب فرض نماز کے بعدسلام پھیرتے تو
[1] ۔صحیح البخاری العیدین باب التکبیر ایام منی واذا غداالی عرفۃ،حدیث 971 وصحیح مسلم صلاۃ العیدین باب ذکر اباحۃ خروج النساء فی العیدین الی المصلی۔حدیث 890۔
[2] ۔البقرۃ:2/185۔
[3] ۔(ضعیف) سنن الدارقطنی ،العیدین 2/49 حدیث 1721۔