کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 237
سے پہلے یابعد میں نفل ادا کرتا ہواور سیدنا ابن مسعود اور حذیفہ رضی اللہ عنہما عید سے قبل نماز سے منع کرتے تھے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اہل مدینہ نماز عید سے پہلے یا بعد میں کوئی نفل نہیں پڑھتے تھے(جبکہ اہل بصرہ پڑھتے تھے)۔"[1] (18)۔گھر لوٹ کرنفل نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں،مسند احمد وغیرہ میں ہے:"نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر لوٹتے تھے تو دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔"[2] (19)۔اگر کسی شخص کی نمازعید نکل گئی یا نماز کا آخری کچھ حصہ ملا تو وہ دورکعتیں زائد(بارہ) تکبیرات کے ساتھ ادا کرے کیونکہ قضا اداکے مطابق ہونی چاہیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد: " فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا ، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا" " جو امام کے ساتھ مل جائے وہ پڑھ لو اور جوحصہ رہ جائے اسے بعد میں پورا کرلو۔"[3] میں عموم ہے ۔اسی طرح جس کی ایک رکعت رہ جائے وہ ایک رکعت اور پڑھ لے۔اگر کوئی شخص خطبہ عید کے دوران میں آئے تو وہ اولاً بیٹھ جائے اور خاموشی سے خطبہ سنے،پھر خطبہ کے بعد دورکعتیں پڑھ لے۔اگر زیادہ افراد ہوں تو باجماعت پڑھیں ورنہ اکیلا ہی پڑھ لے۔ (20)۔عیدین میں کوئی جس قدر چاہے تکبیریں پڑھے کوئی وقت کی پابندی نہیں۔مردبلند آواز سے تکبیریں کہیں جب کہ عورتیں اپنی آواز پست رکھیں۔عیدین کی راتوں میں اور ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں بھی تکبیریں کہی جائیں۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ " "تاکہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔"[4] گھروں ،بازاروں،مساجد اور ہر مناسب جگہ پر اور عید گاہ جاتے وقت کثرت سے تکبیریں بلندآواز سے پڑھی جائیں۔سنن دارقطنی وغیرہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتا ہے کہ جب عیدالاضحیٰ یا عید الفطر کا دن ہوتو تو آپ صبح سویرے تکبریں پڑھتے ہوئے نکلتے،عید گاہ آنے تک بآواز بلند تکبیریں کہتے رہتے حتیٰ کہ نمازکے لیے امام آجاتا۔[5]
[1] ۔المغنی والشرح الکبیر 2/242۔ [2] ۔مسند احمد 3/28۔40۔وسنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات باب ماجاء فی الصلاۃ قبل صلاۃ العید وبعدھا ،حدیث 1293۔ [3] ۔صحیح البخاری الاذان باب قول الرجل فاتتنا الصلاۃ ،حدیث 635 ۔ [4] ۔البقرۃ:2/185۔ [5] ۔سنن الدارقطنی، العیدین 2/44۔حدیث 1700۔