کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 231
" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَوْمَ الْفِطْرِ لَا يَخْرُجُ حَتَّى يَطْعَمَ، وَيَوْمَ النَّحْرِ لَا يَطْعَمُ حَتَّى يَرْجِعَ " "نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے روز کچھ کھاکر نماز کے لیے نکلتے تھے اور عیدالاضحیٰ کے روز نماز ادا کرنے کے بعد کھایا کرتے تھے۔"[1] شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اللہ تعالیٰ نے نماز کوقربانی سے مقدم رکھاہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ" " اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔"[2] اور تزکیہ کو نمازسے مقدم رکھا ہے۔ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى* وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى" "بے شک اس نے فلاح پالی جو پاک ہوگیا اور جس نے اپنے رب کا نام یادرکھا اور نماز پڑھتا رہا۔"[3] بنا بریں سنت یہ ہے کہ صدقۃ الفطر(عیدالفطرمیں) نماز سے پہلے ادا کیا جائے اور عید الاضحیٰ میں نماز کے بعد جانور ذبح کیا جائے۔"[4] (1)۔نماز کے لیے صبح جلدی عید گاہ جانا چاہیے تاکہ امام کے قریب جگہ مل سکے اور نماز کے انتظار کی فضیلت اور اس کا ثواب حاصل ہو۔ (2)۔نماز عید کے لیے ہرمسلمان اچھے سے اچھے کپڑے پہنے۔سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: "كَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُبَّةٌ يَلْبَسُهَا فِي الْعِيدَيْنِ ، وَيَوْمِ الْجُمُعَةِ" "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کپڑوں کا ایک خوبصورت جوڑا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ اورعید کےروز پہنتے تھے۔"[5] سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کے موقع پر اچھے کپڑے پہنتے تھے۔ (3)۔نماز جمعہ کی طرح عید کی نماز بھی مقیم لوگوں کے لیے ہے۔مسافر پر نماز عید لازم نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے ایام میں (میدان منیٰ) میں عید کادن آیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سفر کی وجہ سے)نماز عیدادا نہیں کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
[1] ۔مسند احمد 5/352۔ [2] ۔ الکوثر 108/2۔ [3] ۔الاعلیٰ 87/14۔15۔ [4] ۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ بتصرف 24/222۔ [5] ۔(ضعیف) صحیح ابن خزیمۃ ،جماع ابواب الطیب والتسوک واللبس للجمعۃ ،باب استحباب لبس الجبۃ فی الجمعۃ حدیث 1766 وسلسلۃ الاحادیث الضعیفہ حدیث 2455۔