کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 23
طہارت اور پانی کے احکام
کلمہ شہادت کے بعد اسلام کا دوسرا رکن نماز ہے جو مسلمان اور کافر میں فرق کرنے والی ہے۔ نماز اسلام کا ستون ہے۔ روز قیامت سب سے پہلے اسی رکن کے بارے میں محاسبہ ہو گا۔اگر نماز درست اور مقبول قرارپائی تو اس بندے کے دیگر اعمال بھی درست قرارپائیں گے۔ اور اگر یہ مردود ہوئی تو دوسرے اعمال بھی مردود ہوں گے۔
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف انداز میں نماز کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی جگہ پر نماز کی اقامت کا حکم دیا ہے اور کسی مقام پر اس کی اہمیت و حیثیت کواجاگر کیا ہے کبھی اس کا اجرو ثواب بیان فرمایا ہے اور کہیں نماز کو صبر کے ساتھ ملا کر دونوں کے ذریعے سے مشکلات ومصائب میں استعانت کا حکم دیا ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کی ٹھنڈک، انبیاء کا زیور اور نیک بندوں کا شعار ہے۔ علاوہ ازیں نماز بندے اور اس کے رب کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ نماز انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔نماز کی صحت کا دارومدار اس امر پر ہے کہ نماز حکمی اور حقیقی نجاست سے حسب طاقت پاک و صاف ہواور طہارت کا اہتمام کرے جس کا ذریعہ پانی نہ ہو تو اس کی قائم مقام مٹی ہے۔
فقہائے کرام رحمۃ اللہ علیہ کا ہمیشہ سے یہ انداز رہا ہے کہ دینی مسائل میں سب سے پہلے طہارت کے مسائل بیان کرتے ہیں کیونکہ جب کلمہ شہادت کے بعد نماز دیگر ارکان اسلام میں مقدم قرارپائی تو مناسب سمجھا گیا کہ نماز کے مقدمات کا پہلے ذکر ہو۔ ان مقدمات میں طہارت بھی شامل ہے جو نماز کی چابی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
"مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ" "نماز کی چابی طہارت ہے۔"[1]
اس کی وجہ یہ ہے کہ حدث و نجاست نماز سے مانع ہے۔ حدث و نجاست ایک تالا ہے جو نا پاک شخص کو لگ جاتا ہے۔جب وہ وضو کرتا ہے تو کھل جاتا ہے۔ طہارت نماز کی اہم ترین شرط ہے اور شرط مشروط سے لازماً مقدم ہوتی ہے۔
طہارت کا لغوی معنی ہر قسم کی گندگی سے پاک و صاف ہونا ہے جب کہ شریعت میں اس کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ انسان حکمی اور حقیقی نجاست کو زائل کرے۔
[1] ۔سنن ابی داود الطہارۃ باب فرض الوضو ء حدیث :61، وجامع الترمذی الطہارۃ باب ماجاء مفتاح الصلاۃ الطہور۔حدیث:3۔