کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 228
" قَدْ أَبْدَلَكُمُ اللّٰهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا، يَوْمَ الْفِطْرِ وَ يَوْمَ الْأَضْحَى " "اللہ تعالیٰ نے ان کے عوض تمھیں دو بہتر دن عطا کیے ہیں جو عید الفطر اور عیدالاضحیٰ ہیں۔"[1] ان دو عیدوں کےعلاوہ اور کسی عید کو ایجاد کرنے کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں جیسا کہ عید میلاد النبی وغیرہ ہے جو سراسر اللہ تعالیٰ کے دین میں زیادتی ہے اوربدعت کااجرا ہے۔اس میں سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت ہے اور کفار سے مشابہت ہے۔اسے عید کہا جائے یا کسی انسان یا کسی واقعہ کی یاد میں دن منانا یاہفتہ یا سال منانا،اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سب جاہلیت کے کام ہیں اور مغربی فرقوں کی تقلید ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ا رشاد ہے :"مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ""جو شخص کسی قوم سے مشابہت کرے وہ انھی کا فردہے۔"[2] نیز فرمایا: "إِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللّٰهِ وَخَيْر الْهُدَى هُدَىُ مُحَمَّدٍ(صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) وَشَرّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ" "سب سے اچھی بات اللہ کی کتاب ہے اور بہتر سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے اور سب سے برے کام بدعات ہیں اور ہربدعت گمراہی ہے۔"[3] ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھائے اور اس کے اتباع کی توفیق دے اور باطل کو باطل کی شکل میں دکھائے اور اس سے اجتناب کی ہمت دے۔ عید کے معنی"لوٹ کرآنا"ہے۔عید کو عید اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ باربار ہرسال لوٹ کر آتی ہے،سروراور فرحت لاتی ہے،نیز اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر(روزے یا حج کے نتیجے میں) اپنا فضل واحسان کرتا ہے۔ (2)۔نماز عید کی مشروعیت پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:"فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ"(الکوثر :2)"پس تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى* وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى" "بے شک اس نے فلاح پالی جو پاک ہوگیا اور جس نے اپنے رب کا نام یادرکھا اور نماز پڑھتا رہا۔"[4]
[1] ۔سنن النسائی، صلاۃ العیدین ،حدیث 1557 ومسند احمد 3/103۔ [2] ۔ سنن ابی داود اللباس باب فی لباس الشھرۃ ،حدیث 4031۔ [3] ۔صحیح البخاری الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم حدیث 7277 وصحیح مسلم الجمعۃ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ ، حدیث 867 واللفظ لہ۔ [4] ۔الاعلیٰ 87/14۔15۔