کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 222
(الف)۔جس مسافر پر نماز کی قصر ہے اس پر جمعہ فرض نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب حج وغیرہ کے لیے سفرکیا تو انھوں نے سفر میں جمعہ ادا نہیں کیا تھا۔ (ب)۔اگرکوئی شخص سیر وتفریح کی خاطر کسی میدان یا بیابان کی طرف نکل گیا جہاں کوئی مسجد نہیں تو وہ نماز ظہر ادا کرے۔[1] (ج)۔عورت پر جمعہ فرض نہیں۔امام ابن منذر وغیرہ نے کہا ہے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ عورتوں پر جمعہ فرض نہیں،نیز اس پر بھی اتفاق ہے کہ اگر وہ ادائیگی جمعہ کے لیے مسجد میں آجائیں گی تو ان کا بھی جمعہ ہوجائے گا۔اسی طرح اگر مسافر شخص جمعہ ادا کرنے کے لیے آجائے تو اس کا جمعہ ہوجائے گا۔مریض کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ ان لوگوں پر فرضیت جمعہ کا سقوط اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رعایت ہے۔جس شخص پر جمعہ فرض ہے اسے زوال آفتاب کے فوراً بعد سفر شروع نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایسا شخص جمعہ ادا کرکے سفر پر روانہ ہو۔اسی طرح زوال آفتاب سے تھوڑی دیر پہلے بھی سفر پر روانہ ہونا مکروہ ہے،البتہ اگر راستے میں ادائیگی جمعہ کی کوئی صورت ہوتوتب درست ہے۔ (د)۔جمعہ کی ادائیگی کی شرائط درج ذیل ہیں: 1۔دخول وقت:چونکہ نماز جمعہ فرض ہے،اس لیے دیگرنمازوں کی طرح اس کے لیے بھی ایک وقت مقرر ہے،جس سے پہلے اور بعد ادائیگی جمعہ درست نہیں۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا" "یقیناً مومنوں پر مقررہ وقتوں میں نماز فرض ہے۔"[2] ادائیگی جمعہ کا افضل وقت زوال آفتاب کے بعد ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات زوال آفتاب کے بعد ہی جمعۃ المبارک ادا کیا کرتے تھے۔زوال آفتاب سے قبل جمعہ ادا کرنے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔جمعہ کا آخری وقت(بلااختلاف) ظہر کے آخری وقت تک ہے۔ 2۔اقامت:دوسری شرط یہ ہے کہ جمعہ ادا کرنے والے مسافر نہ ہوں بلکہ مقیم ہوں۔خانہ بدوش اور مختلف جگہوں پر خیمے لگانے والوں پر جمعہ فرض نہیں۔عہد نبوی میں یہ لوگ مدینہ منورہ کےارد گرد رہا کرتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ادائیگی جمعہ کا حکم نہیں فرمایا تھا۔ جس شخص نے امام کے ساتھ نماز جمعہ کی ایک رکعت حاصل کرلی تو وہ ایک رکعت اور پڑھ کر جمعہ کی نماز مکمل کر
[1] ۔نماز جمعہ کی اہمیت کاتقاضا ہے کہ جمعہ کے وقت بلاضرورت سفر نہ کرے جیسے کہ اگلی سطور میں بیان ہوگا۔(صارم) [2] ۔النساء:4/103۔