کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 221
"صَلَاةُ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَانِ تَمَامٌ غَيْرُ قَصْرٍ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" "نماز جمعہ کی دو رکعتیں مکمل نماز ہے،قصر نہیں،یہ بات(تمہارے نبی) محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔"[1] اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز جمعہ بہت سے احکام میں نماز ظہر سے مختلف ہے۔نماز جمعہ ظہر کی نماز سے افضل ہے،اس کی تاکید بھی زیادہ ہے ،اس کے ترک پر سزا ووعید بھی زیادہ سخت وارد ہوئی ہے۔علاوہ ازیں نماز جمعہ کی کئی ایسی خصوصیات اور شرائط ہیں جو نماز ظہر کی نہیں۔جس شخص پر جمعہ فرض ہے جب تک اس کا وقت گزر نہیں جاتا تب تک اسے نماز ظہر کفایت نہیں کرےگی،یعنی جب نماز جمعہ کاوقت گزرجائے ،تب نماز ظہر اس کابدل ہے۔ (11)۔نمازجمعہ ہر مسلمان مرد،آزاد،عاقل،بالغ اور مقیم پر فرض ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "الجمعةُ حقٌ واجبٌ على كلِّ مسلمٍ في جماعةٍ إلا أربعةً : عبدٌ مملوكٌ ، أو امرأةٌ ، أو صبيٌّ ، أو مريضٌ " "ہرمسلمان پر جمعہ فرض ہے مگر چار افراد:غلام،عورت،بچے اور بیمار پر فرض نہیں۔"[2] اس مضمون کی ایک روایت امام دارقطنی نے بھی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سےبیان کی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَعَلَيْهِ الْجُمُعَةُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَّا مَرِيضٌ أَوْ مُسَافِرٌ أَوِ امْرَأَةٌ أَوْ صَبِيُّ أَوْ مَمْلُوكٌ" "جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے،اس پر جمعے کے دن جمعہ فرض ہے،سوائےمریض،مسافر،عورت،بچے اور غلام کے۔"[3] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جولوگ اپنا گھر بار بناکرایک جگہ میں رہتے ہیں،موسم سرما موسم گرما میں کسی دوسری جگہ کوچ نہیں کرتے تو انھیں اپنے ہاں جمعہ کی اقامت کا اہتمام کرنا چاہیے،چاہے ان کے گھر جیسے بھی ہوں،وہ پکی اینٹ کے ہوں یا کچی کے،لکڑی کے ہوں یا جھونپڑیاں ہوں۔الغرض!ان لوگوں کی رہائش گاہوں کی بناوٹ اور ان کا میٹریل اقامت جمعہ کے لیے رکاوٹ کا باعث نہیں۔شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جولوگ ایک جگہ پر اقامت پذیر ہوں یہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہیں جو خیمے اٹھائے ہوئے سفر کرتے رہتے ہیں اور چند دن کہیں اور چنددن کسی اور جگہ چشموں کے پاس یا کہیں شاداب جگہ پر ڈیرہ لگالیتے ہیں۔"[4]
[1] ۔مسند احمد 1/37۔ [2] ۔سنن ابی داود الصلاۃ باب الجمعۃ للمملوک والمراۃ، حدیث 1067۔ [3] ۔(ضعیف) سنن الدارقطنی الجمعۃ باب من تجب علیہ الجمعۃ حدیث 1560 وسنن الکبریٰ للبیہقی 3/184 لیکن جو مسئلہ بیان ہواہے وہ دیگر دلائل سے ثابت ہے۔(ع۔و)۔ [4] ۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰه علیہ 24/166۔