کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 220
اور فرمایا: "ومن لغا فليس له في جمعته تلك شيء" "اور جس نے لغو کام کیا اس کا اس جمعے میں کوئی حصہ نہیں۔"[1] اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے شغل سے خشوع وخضوع جاتارہتا ہے۔ (7)۔دوران خطبہ میں دائیں بائیں جھانکنا،وہاں لوگوں کو بغور دیکھنا جائز نہیں کیونکہ یہ چیز سماع خطبہ سے مانع ہے بلکہ سامع کو چاہیے کہ وہ خطیب کی طرف متوجہ رہے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خطبہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ رہتے تھے۔ (8)۔اگر چھینک آجائے تو خاموشی سے الحمدللہ کہہ دے۔ (9)۔خطبہ شروع ہونے سے پہلے یا خطبہ مکمل ہونے کے بعد میں گفتگو کرنا جائز ہے۔اسی طرح جب خطیب دوخطبوں کے درمیان بیٹھ جائے تو کوئی خاص مصلحت ہوتو کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں،البتہ دنیاوی گفتگو سے اس وقت بھی پرہیز کرنا چاہیے۔الغرض جمعۃ المبارک کے دونوں خطبوں کی اسلام میں بہت بڑی اہمیت ہے کیونکہ ان میں قرآن مجید کی تلاوت اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہوتا ہے اور ان کے ضمن میں وعظ ونصیحت،مفید علمی مباحث اور نصیحت آموز واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔بنابریں خطیب کو سنانے اور سامع کو سننے کا پورا پورا اہتمام کرنا چاہیے۔خطبہ جمعہ کی حیثیت اس عام گفتگو کی سی نہیں جو مجلسوں،جلسوں اور عام اجتماعات کی ہوتی ہے۔ بعض لوگ جب خطبہ جمعہ میں آخرت کی کوئی سزا کابیان یا جہنم کی بات سنتے ہیں تو وہ بلند آواز سےاعوذباللہ پڑھتے ہیں یا ثواب وجنت کاذکر سنتے ہیں تو باآواز بلند اس کا سوال اور دعا کرتے ہیں ،حالانکہ قطعاً اس کاجواز نہیں بلکہ یہ بھی خطبہ کے دوران میں ممنوع کلام میں داخل ہے۔سابقہ دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ دوران خطبہ گفتگو کرنے سے ثواب ضائع ہوجاتاہے بلکہ کلام کرنے والے کا جمعہ ہی نہیں ہوتا۔اس حدیث کے مطابق وہ اس گدھے کی طرح ہے جو بوجھ اٹھائے ہوئے ہے،لہذا اس نقصان دہ عمل سے خود بھی بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی بچانا چاہیے۔ (10)۔علمائے کرام نے بیان کیا ہے کہ نماز جمعہ ایک مستقل اور علیحدہ فرض ہے،ظہر کا بدل نہیں ہے۔امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا ہے:
[1] ۔(ضعیف) سنن ابی داود الصلاۃ باب فضل الجمعۃ حدیث 1051 وضعیف الجامع الصغیر حدیث 657۔