کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 218
آپس میں گفتگو کرنا ناجائز ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ"
"اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگادیا کرو اور خاموش رہا کرو،امید ہے تم پر رحمت ہو۔"[1]
بعض مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت خطبے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔خطبے کو قرآن اس لیے کہا گیا کہ خطبے میں آیات قرآن کی تلاوت ہوتی ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو پھر یہ اپنے عموم کے اعتبار سے خطبہ کو بھی شامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"جس نے کسی کو خاموش کرنے کے لیے کچھ کہا،اس نے لغو کام کیا اور جس نے لغو کام کیا اس کا جمعہ نہیں۔"[2]
ایک دوسری روایت میں ہے:
"مَنْ تَكَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَهُوَ كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا،وَالَّذِي يَقُولُ لَهُ: أَنْصِتْ، لَيْسَ لَهُ جُمْعَةٌ "
’’جس نے جمعے کےدن دوران خطبہ میں کلام کیا وہ اس گدھے کی طرح ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے ۔ اور جو اسے خاموش کراتا ہے اس کا بھی جمعہ نہیں ہوتا ۔‘‘[3]
8۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی مضمون کی روایت بیان ہوئی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"إذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ : أَنْصِتْ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ ؛ فَقَدْ لَغَوْتَ"
"جب تو جمعے کے دن اپنے ساتھی سے کہے:خاموش ہوجا اور خطیب خطبہ دے رہا ہوتوتو نے لغو بات کی۔"[4]
اور"لغو" گناہ ہے۔اگر باتیں کرنے والے کو خاموش ہونے کے لیے کہنا"لغو" ہے جوکہ حقیقت میں امر بالمعروف ہے تو اس کے سوا دوسری قسم کی باتیں تو بالاولیٰ منع ہوں گی۔
[1] ۔الاعراف۔7/204۔
[2] ۔(اسنادہ ضعیف) مسند احمد 1/93۔
[3] ۔(ضعیف) مسند احمد 1/230 ومشکاۃ المصابیح بتحقیق الالبانی، حدیث (17) 1397۔
[4] ۔صحیح البخاری ،الجمعۃ، باب الانصات یوم الجمعۃ ،والامام یخطب، حدیث 934 وصحیح مسلم، الجمعۃ ،باب فی الانصات یوم الجمعۃ فی الخطبۃ،حدیث 851۔