کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 208
سب کا اجماع ہے،ماسوا ان چند افراد کے جو کسی گنتی میں نہیں ہیں۔ (13)۔سفر ہویا حضر،جس وقت بھی دشمن کے حملے کا خطرہ ہونماز خوف درست ہے۔چونکہ اس نماز کاسبب خوف ہے سفر نہیں،لہذا حضرواقامت میں نمازخوف کی رکعات کی تعداد میں قصر نہ ہوگی،البتہ اس کی ہئیت اور طریقہ ادائیگی میں تبدیلی برقراررہے گی،ہاں سفر میں جب نماز خوف ادا ہوگی تو قصر بھی ہوگی اور طریقہ بھی بدل جائے گا۔ (14)۔نماز خوف کی دوشرطیں ہیں: 1۔دشمن ایسا ہو جس سے لڑنا شرعاً جائز ہو۔ 2۔حالت نماز میں اس کے حملے کا خطرہ موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: "إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا" "(تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں)اگرتمھیں ڈر ہوکہ کافرتمھیں ستائیں گے۔"[1] اورفرمان الٰہی ہے: "وَدَّالَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً " "کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور سامان سے بےخبر ہوجاؤتو وہ تم پر اچانک دھاوا بول دیں۔"[2] (15)۔امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے نماز خوف کا وہ طریقہ پسند کیا ہے جو سیدنا سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔[3] کیونکہ وہ طریقہ قرآن مجید کے بیان کردہ طریقے کے قریب ترین ہے کیونکہ اس میں جنگ اور نماز دونوں میں احتیاط کاپہلو پیش نظررہتاہے،نیز اس میں دشمن پر دباؤ برقراررہتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےغزوہ ذات الرقاع کے موقع پر اسے ہی اپنایا تھا۔اس طریقہ کی تفصیل درج ذیل ہے: "أَنَّ طَائِفَةً صَفَّتْ مَعَهُ , وَطَائِفَةً وِجَاهَ الْعَدُوِّ , فَصَلَّى بِاَلَّذِينَ مَعَهُ رَكْعَةً , ثُمَّ ثَبَتَ قَائِما , وَأَتَمُّوا لأَنْفُسِهِمْ , ثُمَّ انْصَرَفُوا , فَصُفُّوا وِجَاهَ الْعَدُوِّ , وَجَاءَتْ الطَّائِفَةُ الأُخْرَى , فَصَلَّى بِهِمْ الرَّكْعَةَ الَّتِي بَقِيَتْ , ثُمَّ ثَبَتَ جَالِسًا , وَأَتَمُّوا لأَنْفُسِهِمْ , ثُمَّ سَلَّمَ بِهِمْ "
[1] ۔النساء 4/101۔ [2] ۔النساء:4/102۔ [3] ۔المغنی والشرح الکبیر 2/264۔