کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 207
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عرفہ اور مزدلفہ میں نمازیں جمع کرنا سنت ہے اور دیگر مقامات پر ضرورت کے پیش نظر مباح ہے،البتہ جب مسافر کو کوئی خاص ضرورت نہ ہوتو افضل یہ ہے کہ ہو ہرنماز وقت پر ادا کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام حج میں عرفہ اور مزدلفہ کے علاوہ کسی مقام پرنمازوں کو جمع کرکے نہیں پڑھا تھا۔منیٰ میں بھی نمازیں جمع نہیں کیں کیونکہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام وسکون سےٹھہرے ہوئے تھے اور کوئی جلدی نہ تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم تب نمازیں جمع کرتے جب سفر میں جلدی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مفید علم کے حصول اور نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین 4۔نماز خوف:نماز خوف ہر جنگ میں جو کفار سے ہو یا باغیوں سے یا اسلامی حکومت کے ساتھ لڑنے والوں اسے ہو،جائز ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا" "(تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں) اگر تمھیں ڈر ہوکہ کافر تمھیں ستائیں گے۔"[1] اس آیت کریمہ کی روشنی میں آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کفار کے علاوہ اور کون ہیں جن سے جنگ کرنا جائز ہے۔واضح رہے جوجنگ شرعاً حرام ہے،اس میں نماز خوف جائز نہیں۔ نماز خوف کی مشروعیت کی دلیل کتاب وسنت اور اجماع ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ" "اور (اے نبی!)جب آپ ان میں ہوں اور ان کے لیے نماز کھڑی کریں تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لیے کھڑی ہو، پھر جب یہ سجده کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں اور وه دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وه آجائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لیے رہیں۔"[2] امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز خوف کی چھ یا سات صورتیں منقول ہیں جو تمام کی تمام(موقع محل کی مناسبت سے)جائز ہیں۔"[3] نماز خوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مشروع ہوئی جوتا قیامت قائم رہے گی۔اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم اور ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہم
[1] ۔النساء 4/101۔ [2] ۔النساء:4/102۔ [3] ۔المغنی والشرح الکبیر 2/264 ونیل الاوطار 3/ 360۔