کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 204
في صلاةِ الحَضَر "
"حضروسفر میں نماز دودورکعت فرض کی گئی تھی،پھر سفر کی نمازقائم رکھی گئی اور حضر(اقامت) کی بڑھادی گئی۔"[1]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
"صَلَاةُ السَّفَرِ رَكْعَتَانِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تَمَامٌ غَيْرُ قَصْرٍ"
"سفر کی نماز دو رکعتیں ہیں۔۔۔۔۔یہ مکمل نماز ہے قصر نہیں۔"[2]
(5)۔نماز کی قصر تب شروع ہوگی جب مسافر اپنے شہر کی آبادی سے نکل جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قصر کی رعایت اس شخص کو دی جو سفر طے کرے۔شرعاً اور عرف عام میں اپنے شہر سے نکلنے سے پہلے وہ سفر طے کرنے والا نہیں کہلاتا ،اس لیے وہ مسافر نہیں۔نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کے لیے باہر دو رنکل جاتے،تب قصر کرتے تھے۔علاوہ ازیں سفر کالفظ"اسفار" سے ہے جس کے معنی"صحرا کی طرف نکلنا"ہے،لہذا جب تک کوئی شخص بستی کے گھروں کی حد سے نکل کر صحرا یا میدان تک نہ پہنچ جائے تب تک وہ مسافر نہیں کہلاتا۔
(6)۔اگر کوئی شخص کسی جگہ باربار آتا جاتا ہے تو وہ قصر نماز ہی پڑھے گا جیسا کہ ڈاکیا یا ٹیکسی ڈرائیور وغیرہ جو اکثر اوقات مختلف شہروں میں باربار آتے جاتے ہیں۔
(7)۔مسافر کے لیے ظہر اور عصر اسی طرح مغرب اورعشاء دونمازوں کوایک وقت میں جمع کرکے ادا کرنا جائز ہے۔جس طرح مسافر کے لیے قصر کرناجائز ہے،اسی طرح جمع کرنا بھی جائز ہے،البتہ جمع کی یہ رخصت عارضی ہے اس پر عمل ضرورت کے وقت ہوگا،مثلاً:کسی مسافر کو منزل پر پہنچنے کی جلدی ہو جیسے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
" أَنّ النَّبِيَّ صلى اللّٰهِ عليه وسلم كَانَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ زَيْغِ الشَّمْسِ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى أَنْ يَجْمَعَهَا إِلَى الْعَصْرِ فَيُصَلِّيَهُمَا جَمِيعًا، وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ زَيْغِ الشَّمْسِ عَجَّلَ الْعَصْرَ إِلَى الظُّهْرِ وَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا ثُمَّ سَارَ، وَكَانَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْعِشَاءِ، وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ عَجَّلَ الْعِشَاءَ فَصَلَّاهَا مَعَ الْمَغْرِبِ"
[1] ۔صحیح البخاری، التقصیر، باب یقصر اذا خرج من موضعہ حدیث 1090 وصحیح مسلم کتاب وباب صلاۃ المسافرین وقصرھا حدیث: 685 واللفظ لہ۔
[2] ۔مسند احمد 1/37۔