کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 20
میرے بھائیو!یہ مت بھولو کہ عمل سے علم میں اضافہ ہوتا ہے ،عقل و بصیرت میں روشنی آتی ہے۔ جب آپ علم کے ساتھ عمل بھی کریں گے تو اللہ آپ کے علم کو ترقی دے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:"جس نے علم کے ساتھ عمل بھی کیا، اللہ تعالیٰ اسے وہ علم دے گا جو اسے پہلے میسر نہ تھا۔" اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس بات کی صداقت کی گواہی دیتا ہے۔ "وَاتَّقُواْ اللّٰهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ" "اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تمھیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔"[1] علم کا حصول، اوقات کا بہترین مصرف ہے، خردمند اس میں رغبت رکھتے ہیں ،علم سے مردہ دلوں کو زندگی ملتی ہے اور اعمال میں جلاپیدا ہوتی ہے۔ رب ذوالجلال نے اپنی کتاب میں علمائے عاملین کی تعریف کی ہے۔ ان کی عظمت ورفعت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: " قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الأَلْبَابِ" "کہہ دیجیے! کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جوعقل مند ہوں۔"[2] اور فرمایا ہے: "يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ" "تم میں سے جو ایمان لائے ہیں اور جنھیں علم دیا گیا ہے اللہ ان کے درجے بلند کرے گا اور اللہ (ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو(خوب ) خبر دار ہے۔"[3] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اولاً ان لوگوں کی امتیازی حیثیت بیان کی ہے جنھیں ایمان و علم کی دولت نصیب ہوئی۔ ثانیاًفرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ علم و عمل دونوں بیک وقت مطلوب ہیں اور ان کا صدورایمان اور اللہ تعالیٰ کی نگہبائی کے اس احساس کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ ہم اللہ کی توفیق سے نیکی و تقوی میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ اس کتاب کے ذریعے سے آپ کی خدمت میں ان فقہی مسائل کے بارے میں( حسب توفیق)معلومات مہیا کر رہے ہیں جن کا علماء نے استنباط کیا اور انھیں اپنی گراں قدر کتب میں مدون فرمایا ہے۔ امید ہے کہ اس کاوش سے آپ کے دل میں دینی علم کے حصول کا مزید شوق پیدا ہو گا۔
[1] ۔البقرۃ:2/282۔ [2] ۔الزمر:9/39۔ [3] ۔المجادلہ:58۔11۔