کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 197
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جو شخص نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اپنائے گا وہ اپنے مقتدیوں کو نماز لمبی ہونے کی شکایت کا موقع نہیں دے گا۔"[1]نماز میں تخفیف سے مراد ایسی نماز ہے جو مختصر بھی ہو اور اس کے ارکان، واجبات اور سنن مکمل بھی ہوں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تھی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشگی فرمائی۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ نماز مقتدیوں کی خواہش کے مطابق ہو۔ بعض علماء کے ہاں تخفیف کا مطلب یہ ہے کہ کمال کے ادنی درجے پر اکتفا ہو ،مثلاً:رکوع اور سجدے میں تین تسبیحات کہی جائیں، البتہ جب کبھی مقتدیوں کی متفقہ رائے یہ ہو کہ امام انھیں لمبی نماز پڑھائے تب قیام لمبا کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اب مقتدیوں کے متنفر ہونے کا اندیشہ نہیں رہا۔ امام ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" فقہاء کی یہ رائے کہ امام کو رکوع اور سجدے میں تین تسبیحات سے زیادہ نہیں کہنی چاہئیں ،یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کے خلاف نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین تسبیحات سے زیادہ پڑھا کرتے تھے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجرو ثواب کے حصول میں جو جذبہ تھا اس اعتبار سے یہ تعداد زیادہ تھی۔"[2] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"امام نماز کی قراءت و تسبیحات کو مسنون مقدار سے زیادہ نہ کرے، البتہ موقع محل کی مناسبت سے کبھی کبھار زیادہ وقت بھی لگایا جا سکتا ہے ،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ایسا کیا کرتے تھے۔"[3] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"علماء نے کہا ہے کہ احادیث شریفہ میں قراءت کی مقدار میں روایات کا جو اختلاف ہے ان کا تعلق مختلف احوال کی مناسبت سے ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقتدیوں کی صورت حال دیکھ لیتے نفسیات پڑھ لیتے ۔ اگر وہ لمبا قیام چاہتے تو لمبا قیام کرلیتے اور اگر کسی عذر کی وجہ سے اختصار چاہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختصر نماز پڑھا دیتے تھے۔ کبھی لمبی نماز پڑھانے کا ارادہ ہوتا لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز مختصر کر دیتے تھے جیسا کہ روایات میں موجود ہے۔‘‘ امام اتنی جلدی نماز نہ پڑھائے کہ مقتدی امام کے ساتھ مسنون ارکان، مثلاً:سورۂ فاتحہ ،تین تین بار تسبیحات ،رکوع و سجود ادا نہ کر سکے بلکہ قراءت ٹھہر ٹھہر کر کرے۔ اور رکوع و سجود کی تسبیحات کا موقع دے۔ یہ بھی عمل مسنون ہے کہ امام پہلی رکعت لمبی کرے، چنانچہ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت کو لمبا کرتے تھے۔"[4]
[1] ۔فتح الباری شرح صحیح البخاری 2/260۔ [2] ۔فتح الباری 2/199۔تحت الحدیث :702۔ [3] ۔الفتاوی الکبری لا بن تیمیہ رحمۃ اللّٰه علیہ الاختیارات العلمیہ ،باب صلاۃ الجماعۃ5 /347۔ [4] ۔صحیح البخاری، الاذان ،باب القراءۃ فی الظہر ،حدیث: 759۔ وصحیح مسلم، الصلاۃ، باب القراءۃ فی الظہر ،حدیث 451۔452۔