کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 188
جیسا کہ حدیث میں ہے: "فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً" "جب قراءت و فقہ میں برابر ہوں تو اس شخص کو امام بنایا جائے جس کی ہجرت زیادہ قدیم ہے۔"[1] ہجرت کا مطلب کفرو شرک کے مالک کو چھوڑ کر اسلامی ملک میں منتقل ہونا ہے۔ 4۔اگر قراءت قرآن، فقہ دین اور ہجرت میں سب برابر ہوں تو سب سے زیادہ عمر والا امامت کے لائق ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ("وليؤمكم أكبركم") ’’ تم میں سے بڑا شخص تمہارا امام ہے۔‘‘ [2] اس کی وجہ یہ ہے کہ عمر میں بڑا ہونا اسلام میں باعث فضیلت ہے ،نیز بڑی عمر میں خشوع و خضوع زیادہ ہوتا ہے اور اس کی دعا بھی زیادہ قبول ہوتی ہے۔ مذکورہ ترتیب کی دلیل سیدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ کی درج ذیل حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللّٰهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا وفي رواية فَأَكْبَرُهُمْ سِنًّا " "(اولاً)وہ شخص قوم کی امامت کرائے جو سب سے زیادہ قرآن مجید پڑھا ہوا ہے۔ اگر وہ قراءت قرآن میں برابر ہوں تو پھر جو شخص سنت، یعنی دین کا فہم زیادہ رکھتا ہو۔ اگر وہ دینی فہم میں بر ابر ہوں تو جس کی ہجرت سب سے قدیم ہے اگر ہجرت میں برابر ہوں تو جس کا ایمان مقدم ہو۔"[3]ایک روایت میں "یمان"کے بجائے"عمر" کا ذکر ہے، یعنی " جس کی عمر زیادہ ہو۔" شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب و سنت کا علم رکھنے والے کو سب پر فضیلت دی ہے اگر علم میں برابر ہوں تو عمل صالح میں جو سب سے بڑھ کر ہے وہ مقدم ہو گا اور اپنے اختیار کے ساتھ عمل صالح میں آگے بڑھنے والا "مہاجر"ہے جسے عمر رسیدہ پر ترجیح دی جائے گی۔"[4] یہاں کچھ اور بھی اعتبارات وصفات ہیں جن کے حاملین کو امامت میں حاضرین پر بہر صورت ترجیح ہو گی۔
[1] ۔صحیح مسلم ،المساجد، باب من احق بالامامۃ؟ حدیث :673۔ [2] ۔صحیح البخاری الاذان،باب من قال :لیؤذن فی السفر مؤذن واحد ،حدیث:628۔وصحیح مسلم ،المساجد ،باب من احق بالامامۃ؟ حدیث :674۔ [3] ۔صحیح مسلم، المساجد، باب من احق بالامامۃ؟ حدیث :673۔ [4] ۔مجموع الفتاوی لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰه علیہ 23/386۔