کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 181
جو شخص امام سے آگے بڑھتا ہے وہ گدھے کی طرح ہے جسے اپنے کام کے مقصد کا فہم نہیں ہوتا، ایسا کرنے والا شخص درحقیقت سزا کا حق دار ہے۔ اور صحیح حدیث میں ہے کہ امام صرف اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے جب تک وہ رکوع نہ کرےتم بھی رکوع نہ کرو اور جب تک وہ سجدہ نہ کرے تم بھی سجدہ نہ کرو جیسا کہ مسند احمد اور سنن ابو داؤد میں ہے: "إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا ، وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، فَقُولُوا : رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا..... " "امام بنانے کا مقصد اس کی اقتدا کرنا ہے۔ جب وہ رکوع میں جائے تب تم رکوع میں جاؤ ،اس کے رکوع سے پہلے تم رکوع نہ کرو۔ جب وہ سجدے میں جائے تب تم سجدے میں جاؤ اور اس کے سجدے سے قبل تم سجدہ نہ کرو۔"[1] حدیث میں ہے: جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں کھڑے ہوتے تو ہر شخص اس وقت تک اپنی کمر نہ جھکاتا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں نہ چلے جاتے ،پھر وہ آپ کے بعد سجدہ میں جاتے۔[2] سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو امام سے سبقت کرتے دیکھا تو اسے مارا اور فرمایا:" تم نے اکیلے نماز پڑھی نہ اپنے امام کی اقتدا کی۔"[3] یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں عام طور پر نماز ی حضرات سستی کر جاتے ہیں یا وہ مسئلہ کا علم نہ ہونے کی وجہ سے امام سے سبقت کر جاتے ہیں اور وعید شدید کے سزا وار ہوتے ہیں بلکہ اندیشہ ہے کہ ان کی نماز ہی صحیح نہ ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "فَلَا تَسْبِقُونِي بِالرُّكُوعِ، وَلَا بِالسُّجُودِ، وَلَا بِالْقِيَامِ، وَلَا بِالِانْصِرَافِ" "رکوع ،سجدہ، قیام اور سلام پھیرنے میں مجھ سے آگے نہ پڑھو۔"[4] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"امام سے مسابقت ائمہ کے ہاں بالا تفاق حرام ہے، کسی کے لائق نہیں کہ وہ اپنے امام سے پہلے رکوع کرے اور امام سے پہلے سر اٹھائے یا امام سے پہلے سجدہ کرے۔ اس
[1] ۔سنن ابی داؤد الصلاۃ باب الامام یصلی من قعود ،حدیث 603۔ومسند احمد 2/341۔ [2] ۔صحیح البخاری ،الاذان ،باب متی یسجد من خلف الامام ؟حدیث 690۔ [3] ۔مجموع الفتاوی لابن تیمیہ رحمۃ اللّٰه علیہ 3/337۔ [4] ۔صحیح مسلم، الصلاۃ ،باب تحریم سبق الامام برکوع اوسجود ونحوھما، حدیث 426۔