کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 18
ایک اور مقام پر فرمایا:
" إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ " "بے شک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں۔"[1]
ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے ایسا طریقہ معلوم کرے جس سے وہ اپنا عمل درست طور پر ادا کر سکے تاکہ اس کا عمل صحیح اور نتیجہ خیز ثابت ہو۔ بتائیے !ایسی ہم عبادت جس پر جہنم سے نجات اور جنت میں داخلے کا دارومدار ہو۔ اسے بغیر علم کے کس طرح صحیح طور پر ادا کیا جاسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ علم و عمل کے اعتبار سے لوگوں کے تین گروہ ہیں:
پہلا گروہ: ان افراد پر مشتمل ہے جو نافع علم( علم دین)اور عمل صالح دونوں سے سر فراز ہوئے۔ یہ وہ گروہ ہےجسے اللہ تعالیٰ نے انعام یافتہ ہستیوں ،یعنی انبیاء، صدیقین ،شہداء اور صالحین کی راہ پر چلنے کی توفیق بخشی ۔ ایسے خوش قسمت لوگ جنت میں بھی انھی ہستیوں کے ساتھ ہوں گے اور یہ رفاقت بہت خوب ہے۔
دوسرا گروہ: ان افراد کا ہے جنھوں نے نفع مند علم سیکھا لیکن اس پر عمل نہ کیا۔ یہ لوگ یہود تھے جن پر اللہ تعالیٰ کا غیظ و غضب نازل ہوا۔ اس گروہ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے یہود کی روش اختیار کی۔
تیسرا گروہ : اس میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے اعمال علم کے بغیر تھے۔ یہ لوگ نصاریٰ تھے جو راہ حق سے بھٹک کر گمراہ ہوئے۔ اس گروہ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے ان کی پیروی کی۔
سورۃ فاتحہ جو ہم نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں،میں اللہ تعالیٰ نے ان تینوں گروہوں کا یوں ذکر فرمایا ہے:
"اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ"
"ہمیں سیدھی (اور سچی )راہ دکھا۔ ان لوگوں کی راہ جن پر تونے انعام کیا، جن پر تیرا غضب نہیں ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔"[2]
امام شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : "اللہ تعالیٰ کا ارشاد: (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) میں(الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ) سے مراد وہ علماء ہیں جنھوں نے اپنے علم کے مطابق اعمال نہ کیے اور(الضَّالِّينَ)سے مراد وہ علماء ہیں جنھوں نے بغیر علم کے اعمال کیے۔ پہلی صفت یہود کی ہےاور دوسری نصاریٰ کی ہے۔
اب افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ اکثر لوگ جب سورۃ فاتحہ کی یہ تفسیر پڑھتے اور سنتے ہیں کہ(الْمَغْضُوبِ
[1] ۔مسند احمد 5/196۔وسنن ابی داؤد، العلم باب فی فضل العلم حدیث :3641۔وجامع الترمذی، العلم باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ ،حدیث 2682۔
[2] ۔الفاتحہ :1/6۔7۔