کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 177
البتہ اگر جماعت کے نکل جانے کا اندیشہ ہوتو پھر نفل نماز توڑ دے۔[1]کیونکہ فرض نماز کی اہمیت زیادہ ہے۔ جماعت کے دوران میں شامل ہونے والے کے احکام اہل علم کے صحیح قول کے مطابق جو شخص نماز باجماعت کی ایک رکعت حاصل کر لے اس نے گویا مکمل نماز کا اجرو ثواب حاصل کر لیا۔ اگر اس نے ایک رکعت سے کم حصہ حاصل کیا تو اسے باجماعت نماز پڑھنے والا شمار نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اسے رکعت کا جتنا حصہ ملے اسے امام کے ساتھ شامل ہونا چاہیے اور اسے اس کی اچھی نیت کی وجہ سے جماعت کا ثواب مل جائے گا۔ جس طرح جماعت ختم کے بعد پہنچنے والے کو نیت کا ثواب مل جاتا ہے جیسا کہ مختلف احادیث کا مفہوم ہے:"جس نے نیکی کی نیت کر لی لیکن کسی وجہ سے اسے ادا نہ کر سکا تو اسے نیکی کا اجرمل جائے گا۔" رکوع میں شامل ہونے سے رکعت حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "من أدرك الركوع فقد أدرك الركعة " "جس نے رکوع پالیا اس نے رکعت پالی۔"[2] نیز صحیح بخاری میں سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ جب رکوع کی حالت میں جماعت کے ساتھ شامل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہ رکعت دہرانے کا حکم نہیں دیا تھا۔[3]اس سے واضح ہوا کہ اس کی رکعت ہوگئی۔
[1] ۔فاضل مؤلف حفظہ اللہ کا یہ موقف صحیح نہیں۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم :"إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة"(صحیح مسلم ،صلاۃ المسافرین، باب کراھۃ الشروع فی نافلۃ ،حدیث710۔کا تقاضا تو یہی ہے کہ اقامت (تکبیر ) کے شروع ہوتے ہی سنت یا نفل پڑھنے والا اپنی نماز ختم کردے اور جماعت میں شامل ہو جائے اور بعد میں سنتیں ادا کرے کیونکہ اقامت کے بعد پڑھی جانے والی نماز کا شرعاً وجود منفی ہے۔ [2] ۔المغنی والشرح الکبیر 1/580۔شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔الارواء :2/266۔ [3] ۔صحیح البخاری، الاذان، باب اذا رکع دون الصف، حدیث 783۔اس حدیث ابو بکر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ولا تعد"دوبارہ ایسا نہ کرنا ۔"بنا بریں اگر بالفرض اس نے اعادہ نہ بھی کیا ہو(جس کا ذکر نہیں) تو آپ کے روک دینے کی وجہ سے آئندہ نہ اس کی رکعت ہوگی اور نہ کسی اور شخص کی۔ اگر مذکورہ کلمے کا لحاظ نہ رکھا جائے تو ثابت ہو گا کہ نماز باجماعت کے دوران میں شامل ہونے کا وہ ایک طریقہ ہے جو سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اختیار کیا تھا، حالانکہ یہ حضرات اس کے قائل اور فاعل نہیں۔ باقی رہی ابو داؤد والی مذکورہ روایت تو وہاں رکعت کا اجروثواب مراد ہے جیسا کہ اس باب کے شروع میں بیان ہو چکا ہے۔(صارم)