کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 174
"اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے اور صرف نماز کی خاطر مسجد میں آتا ہے تو جب وہ ایک قدم اٹھاتا ہے تو اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے، اس کا ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے۔"[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "يَا بَنِي سَلِمَةَ! دِيَارَكُمْ تُكْتَبْ آثَارُكُمْ" "اے بنو سلمہ! اپنے(موجودہ) گھروں میں رہائش رکھو (کیونکہ دور کی وجہ سے) تمہارے (قدموں کے) نشانات(اللہ کے ہاں) لکھے جاتے ہیں۔"[2] بعض علماء کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دو مسجدوں میں سے قریب تر مسجد میں نماز ادا کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ پڑوس میں ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ حق دار ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے:"لا صلاة لجار المسجد إلا في المسجد""مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد میں ہوتی ہے۔"[3] نیز قریب کی مسجد کو چھوڑ کر دور مسجد میں نماز ادا کرنے سے پڑوسی اس کے عمل پر تعجب کریں گے۔ غالباً یہ رائے زیادہ وزن رکھتی ہے کیونکہ دور کی مسجد میں جانے سے قریب والی مسجد کو نظر انداز کرنا لازم آتا ہے اور قریب کی مسجد کے امام کے بارے میں دوسروں کو بد گمانی ہو گی۔ باجماعت نماز کے احکام میں یہ بھی ہے کہ مسجد کے مقرر امام کی موجودگی میں دوسرے شخص کا امامت کروانا ناجائز ہے الایہ کہ اس کی اجازت ہو یا وہ معذورہو۔ صحیح مسلم میں ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وَلا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ , ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِلا بِإِذْنِهِ " "کوئی شخص کسی شخص کے دائرہ اختیار واقتدار میں اس کی اجازت کے بغیر جماعت نہ کرائے۔[4] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں:" گھر کا مالک ،صاحب مجلس اور مسجد کا مقرر امام اپنی
[1] ۔صحیح البخاری، الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، حدیث 647والصلاۃ ،باب الصلاۃ فی مسجد السو ق ،حدیث 477۔ [2] ۔صحیح البخاری الاذان باب احتساب الاثار ،حدیث 655 وصحیح مسلم المساجد باب فضل کثرۃ الخطا الی المساجد، حدیث665 واللفظ لہ۔ [3] ۔(ضعیف)السنن الکبری للبیہقی، ابواب فضل الجماعۃ والعذر بترکھا ،باب ماجاء من التشدید:3/57۔ [4] ۔صحیح مسلم ،المساجد، باب من احق بالا مامۃ؟حدیث673۔