کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 171
جو شخص مسجد کی ویرانی کا سبب بنے اور اس میں اقامت نماز سے روکے، اللہ تعالیٰ نے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے: "وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ" "اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے ذکر کیے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے، ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی ان میں جانا چاہیے ،ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت میں بھی بڑے بڑے عذاب ہیں۔"[1] اگر باجماعت نماز کا اہتمام مسجد سے باہر ہونے لگے تو مساجد خالی ہو جائیں گی یا مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں کمی واقع ہو جائے گی ۔ اس کے نتیجے میں دلوں میں نماز کی اہمیت کم ہو جائے گی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللّٰهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ " "ان گھروں میں جن کے ادب واحترام کا اور اللہ کا نام وہاں لیے جانے کا حکم ہے۔"[2] آیت کریمہ میں "رفع ذکر "حقیقی اور معنوی دونوں اعتبار سے مطلوب ہے، البتہ اگر مسجد سے باہر باجماعت نماز کی کوئی خاص ضرورت پیش آجائے مثلاً :کچھ نمازی اپنے دفتر میں کام کی جگہ پر ہوں اور اپنی ڈیوٹی پر مامور ہوں اگر وہ اپنی جگہ نماز ادا کر لیں تو یہ ان کے کام کی وجہ سے زیادہ مناسب ہوگا۔ اس حالت میں وہاں کام کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ حاضر ہوں۔ ان کے اس عمل سے ان کی قریبی مسجد کا تعطل لازم نہیں آئے گا کیونکہ وہاں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والے موجود ہیں۔ شاید ان حالات میں اس قسم کےجواز کے پیش نظر ان کے لیے اپنے دفتر وغیرہ میں نماز پڑھ لینے میں کوئی حرج نہ ہو گا۔ نماز باجماعت کی ادائیگی کے لیے کم ازکم دو فرد ہونے چاہئیں کیونکہ"جماعت" کا لفظ اجتماع سے ماخوذ ہے اور جمع کا اطلاق کم ازکم دو افراد پر ہوتا ہے ،چنانچہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: "اثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ" "دواور دو سے اوپر جماعت ہے۔"[3] ایک اور روایت میں (ایک مرتبہ جماعت ہوجانے کے بعد ایک شخص آیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس پر
[1] ۔البقرۃ:2/114۔ [2] ۔النور:24۔36۔ [3] ۔(ضعیف)سنن ابن ماجہ، اقامۃ الصلوات، باب الاثنان جما عۃ ،حدیث 972۔