کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 165
سے بعض وہ اجتماع ہیں جو روزانہ ہوتے ہیں جیسا کہ مسلمان مساجد میں نمازوں کی ادائیگی کے لیے دن رات میں پانچ دفعہ سب کے حضور جمع ہوتے ہیں۔ان اجتماعات میں سے ہفتہ وار جمعہ کا اجتماع بھی ہے جو پانچ نمازوں کے اجتماع سے زیادہ بڑا ہوتا ہے ان کے علاوہ دو اجتماع سالانہ ہوتے ہیں جو عیدین کے اجتماع ہیں جو جمعہ کے اجتماع سے کہیں زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔ یہ اجتماعات ہر شہر میں ایک مقام پر منعقد ہوتے ہیں۔ ایک اجتماع ایسا بھی ہے جو سال میں ایک مرتبہ منعقد ہوتا ہے وہ وقوف عرفہ کا اجتماع ہے یہ تعداد میں عیدین کے اجتماع سے بہت بڑا ہوتا ہے درحقیقت یہ مسلما نوں کا عظیم اسلامی اور عالمی اجتماع ہوتا ہے۔ ان عظیم اسلامی اجتماعات کے انعقاد میں مسلمانوں کی بہت سی مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ان کے ذریعے سے مسلمانوں کے درمیان احسان محبت اور باہمی ہمدردی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے رابطہ قائم رہتا ہے۔ ایک دوسرے کے دل میں پیار اور یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت رہتی ہے۔ مریض کی بیمار پرسی ممکن ہو جاتی ہے۔ فوت شدہ کی خبر مل جاتی ہے۔ مصیبت زدہ کی فریاد رسی ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کی اجتماعی قوت کا اظہار ہوتا ہے۔ باہمی تعارف اور گہرا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں ان عظیم اجتماعات سے کفاراور منافقین دشمنوں پر مسلمانوں کا رعب طاری ہوتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے شیطان لوگ مسلمانوں کے لیے عداوت و دشمنی اور کینہ و بغض کا جو جال بنتے ہیں اجتماعی قوت سے اس کا ازالہ ہو سکتا ہے۔نیکی و تقوی کی بنیاد پر اتفاق و اتحاد پیدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لَا تَخْتَلِفُوا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ" "نماز میں ایک دوسرے سے ہٹ کر(یا آگے پیچھے ہو کر ) کھڑے نہ ہوا کرو،ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔"[1] نماز باجماعت کے فوائد میں سے ناواقف کو تعلیم دینا اور اس کے ثواب میں اضافہ کرنا ہے، نیز جب کوئی مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو مسجد میں اعمال صالح کرتا دیکھے گا تو اس میں مسابقت کا جذبہ بیدار ہوگا۔عمل صالح میں تیز اور اس پر متوجہ ہوگا ۔یا ان کی پیروی کر کے اپنی کمی دور کر سکے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "صلاة الجماعة أفضل من صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة " وفي رواية... بخمس وعشرين درجة"
[1] ۔صحیح مسلم، الصلاۃ ،باب تسویۃ الصفوف واقامتہا، حدیث :432۔وسنن ابی داؤد الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف، حدیث 664۔