کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 157
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ؛ فَإِنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحينَ قَبْلَكُمْ، وَهُوَ قُرْبَةٌ إِلَى رَبِّكُمْ، وَمَكْفَرَةٌ لِلسَيِّئَاتِ، وَمَنْهَاةٌ عَنِ الْإِثْمِ" "رات کے وقت قیام کرو، تم سے پہلے نیک لوگوں کی یہی عادت تھی۔ یہ تمہارے لیے اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، برائیوں کا کفارہ ہے اور گناہوں کے لیے رکاوٹ ہے۔"[1] رات کو قیام کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے مدح کرتے ہوئے فرمایا: "إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَ (16) كَانُوا قَلِيلاً مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ (17) وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ" "وہ تو اس سے پہلے ہی نیکو کار تھے وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے ۔ اور وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے۔"[2] اورفرمایا: "تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (16)فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ" "ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں ۔اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں۔ کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لیے پوشیدہ رکھی گئی ہے جو کچھ وہ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔"[3] رات کے قیام سے متعلق قرآن و حدیث میں بہت تاکید ہے کیونکہ نوافل میں سب سے زیادہ فضیلت رات کے قیام کی ہے۔ رات کے قیام کی فضیلت کا پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں حددرجہ کا اخفااور اخلاص ہے نیز یہ لوگوں کی غفلت کا وقت ہے اس میں قیام کرنا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو نیند اور آرام پر ترجیح دینا ہے۔ منع کردہ اوقات کے سوانفلی نماز کے لیے تمام اوقات مستحب ہیں، جبکہ مذکورہ دلائل کی روشنی میں رات کی نماز دن کی نماز سے افضل ہے اور رات کی نماز میں سے افضل نماز وہ ہے جو نصف رات کے بعد آخری تہائی حصے میں پڑھی جائے کیونکہ صحیح بخاری میں مرفوعاً روایت ہے:
[1] ۔المستدرک للحاکم 1/308۔حدیث1156۔ [2] ۔الذاریات51۔16۔18۔ [3] ۔السجدۃ32۔16۔17۔