کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 149
اور بعد میں دو رکعتیں، مغرب کے بعد گھر میں دورکعتیں، عشاء کے بعد گھر میں دو رکعتیں اور نماز فجر سے پہلے دو رکعتیں اور یہ ایسا وقت ہوتا تھا کہ آپ کے پاس کوئی نہیں آتا تھا۔"[1] "حدثتني حفصة أنه كان إذا إذن المؤذن وطلع الفجر صلى ركعتين" مجھے (ابن عمر رضی اللہ عنہما کو) سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے بتایا :"جب فجر طلوع ہوجاتی اور مؤذن اذان دے دیتا تو آپ دو رکعتیں ادا کرتے ۔"[2] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: "كَانَ يُصَلِّي فِي بَيْتِي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ، ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ" "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعات پڑھتے، پھر لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے نکل جاتے۔ پھر میرے گھر واپس آتے تو دورکعتیں پڑھتے تھے۔"[3] اس روایت سے یہ استدلال بھی کیا جاتا ہے کہ "سنت نماز" مسجد کی نسبت گھر میں ادا کرنا افضل ہے، نیز اس میں بہت سی مصلحتیں ہیں۔ چند ایک یہ ہیں: 1۔ گھرمیں نماز ادا کرنےسے نیک عمل ریا کاری اور نمائش سے محفوظ رہتا ہے۔اور لوگوں کی نظر سے مخفی رہتا ہے۔ 2۔گھر میں نفل نماز ادا کرنے کے سبب خشوع وخضوع زیادہ ہوتا ہے۔ 3۔اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے گھر کی آبادی ہوتی ہے جس کی وجہ سے گھر میں رحمت کا نزول ہوتا ہے اور شیطان دور ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "اجْعَلُوا مِنْ صَلَاتِكُمْ فِي بُيُوتِكُمْ، وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا" "تم اپنی نماز کا ایک حصہ گھروں میں ادا کرو،انھیں قبرستان (کی طرح) نہ بناؤ۔" [4] سنن مؤکدہ میں سے فجر کی دو رکعتوں کی تاکید سب سے بڑھ کر ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: "لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ"
[1] ۔صحیح البخاری التہجد باب الرکعتین قبل الظہر حدیث:1180۔ وصحیح مسلم فضل السنن الرا تبۃ قبل الفرائض حدیث 729۔ [2] ۔صحیح البخاری التہجد باب الرکعتین قبل الظہر حدیث:1181۔ [3] ۔صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب جواز النافلۃقائما وقاعداً حدیث 730۔ [4] ۔صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب صلاۃ النافلۃ فی بیتہ حدیث 777۔