کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 147
متوجہ رکھنا ہے۔ بسااوقات قلیل میں کثیر کی نسبت زیادہ خیر ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کو ترتیل سے، یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا تیزی کے ساتھ پڑھنے سے افضل ہے۔ تلاوت قرآن مجید میں مناسب تیزی یہ ہے کہ قرآن مجید کا کوئی حرف چھوٹنے نہ پائے۔ اگر تیزی کی وجہ سے قرآن مجید کے حروف چھوٹ گئے تو یہ ناجائز کام ہوگا ،ایسا کرنے والے کو روکنا چاہیے کیونکہ یہ انداز حکم باری تعالیٰ کے خلاف ہے۔ قاری اس طرح قراءت کرے کہ سامعین مستفید اور محظوظ ہوں تو یہ انداز مناسب اور خوب ہے جو لوگ قرآن مجید کو سوچ سمجھ کرنہیں پڑھتے اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ" "اور ان میں سے کچھ ان پڑھ ہیں وہ کتاب کو نہیں جانتے سوائے جھوٹی آرزوؤں کے اور بس وہ صرف گمان کرتے ہیں۔"[1] قرآن مجید کو نازل کرنے کا مقصد اس کے معانی کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ نہ کہ محض اس کی تلاوت کرنا۔ "بعض ائمہ مساجد مسنون طریقے سے نماز تراویح ادا نہیں کرتے کیونکہ وہ قرآن مجید اس قدر تیزی سے پڑھتے ہیں کہ الفاظ قرآن مجیدکی ادائیگی صحیح نہیں ہوتی ،نیز ان کے قیام ، رکوع اور سجدہ میں اطمینان و سکون نہیں ہوتا۔ حالانکہ اطمینان اور ٹھہراؤ نماز کا ایک رکن ہے۔ مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہ رکعات بھی کم پڑھتے ہیں۔ یہ انداز عبادت کو کھیل تماشہ بنانے کے مترادف ہے۔[2]ان لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اندر خوف الٰہی پیدا کریں،اپنی نمازوں کو صحیح اور درست کریں۔ اپنے آپ کو اور اپنے پیچھے کھڑے ہونے والوں کو نماز تراویح کی ادائیگی میں مسنون طریقے سے محروم نہ رکھیں۔[3]
[1] ۔البقرۃ:2/78۔ [2] ۔بعض ائمہ کرام لاؤڈ سپیکرکے ذریعے سے مسجد سے باہر کے لوگوں کو اپنی قراءت سناتے ہیں جس سے ارد گرد کی مساجد کے نمازیوں اور اہل محلہ کو تشویش ہوتی ہے جو قطعاً جائز نہیں ۔شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"جو شخص قرآن مجید کی تلاوت کر رہا ہے اور لوگ اس کے پاس نفل ادا کر رہے ہیں تو اس کے لیے مناسب نہیں کہ اونچی قراءت کر کے دوسروں کو پریشان کرے۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ہاں تشریف لائے جو مسجد میں قیام اللیل کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے لوگو !تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے سرگوشیاں کر رہاہے۔لہٰذا کوئی بلند آواز سے قراءت کرکے دوسرے کی نماز میں خلل نہ ڈالے ۔"(سنن ابی داؤد ،التطوع ،باب رفع الصوات بالقراء ۃ فی صلاۃ اللیل حدیث :1332۔ومجموع الفتاوی لشیخ الا سلام ابن تیمیہ :23/62۔6۔(مؤلف) [3] ۔بعض ائمہ مساجد نماز تراویح میں قرآن مجید کی قراءت بہت تیزی سے کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ قرآن مجید پڑھتے ہیں ،وہ آخری عشرہ کے شروع یا درمیان میں قرآن مجید مکمل کر لیتے ہیں۔ پھر مسجد چھوڑ کر عمرہ کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔اور اپنی جگہ پر کسی نااہل شخص کو امام بنالیتے ہیں ،یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے اور امامت کی ذمہ داری سے غفلت اور کوتاہی ہے۔ انھیں یادرکھنا چاہیے کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی ان پر واجب ہے جب کہ عمرہ مستحب ہے یہ لوگ فعل مستحب کی خاطر واجب کو کیونکر چھوڑدیتے ہیں۔ ان لوگوں کا مسجد میں رہنا اور اپنی ذمہ داری کو مکمل طور پر ادا کرنا عمرہ کرنے سے کہیں افضل ہے۔ بعض حضرات نمازتراویح میں قرآن مجید جلد مکمل کر کے ماہ رمضان کی باقی راتوں میں چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھ کر مختصر ساقیام کرتے ہیں ،حالانکہ یہ راتیں جہنم سے آزادی حاصل کرنے کی راتیں ہیں ۔یہ لوگ شاید سمجھتے ہیں کہ تراویح اور تہجد کا مقصد محض قرآن مجید مکمل کرنا ہے نہ کہ حکم الٰہی کی پیروی کرتے ہوئے قیام کرنا اور ان راتوں کے فضائل حاصل کرنا تو یہ ان کی لاعلمی ہے اور عبادت کو ایک مشغلہ اور کھیل بنانا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان لوگوں کو راہ راست پر لائے۔(مؤلف)