کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 114
12۔ارکان میں ترتیب قائم رکھنا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرتے وقت ارکان نماز کو ترتیب سے ادا کیاکرتے تھے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: "صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي" "تم ایسے نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"[1] علاوہ ازیں جس شخص نے درست طریقے سے نماز ادا نہیں کی تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز کی تعلیم دی تو ترتیب کو قائم رکھا۔ 13۔سلام پھیرنا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "وختامها التسليم" "نماز کا اختتام سلام پھیرنے سے ہے۔"[2] ایک دوسری روایت میں یوں ہے: "وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ" "نماز کی تحلیل سلام ہے۔"[3] الغرض،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے نکلنے کے لیے سلام کو بطور علامت کے مقرر کیا ہے۔ عزیزم قاری کتاب!جو شخص ان ارکان میں سے ایک رکن بھی چھوڑ دے گا(اگراس نے تکبیر تحریمہ نہ کہی)تو اس کی نماز نہ ہوگی۔اگر اس نے تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی اور رکن عمداً چھوڑدیا تو اس کی نماز باطل ہوگی۔اگر اس سے رکوع یا سجدہ وغیرہ سہواً چھوٹ گیا لیکن بعد والی رکعت کی قراءت شروع کرنے سے پہلے پہلے اسے یاد آگیا تو وہ واپس لوٹ آئے اور چھوٹ جانےوالا رکن ادا کرے اور اس رکن کے بعد والے ارکان بھی دوبارہ ادا کرے جو اس رکعت سے متعلق ہیں۔اگر اے دوسری رکعت کی قراءت شروع کرنے کے بعد یادآیا تو اس کے چھوٹے ہوئے رکن والی رکعت باطل ہوگی اور بعد والی رکعت اس کے قائم مقام ہوجائے گی،اسےایک رکعت اور ادا کرنا ہوگی۔اور وہ آخر میں سجدہ سہو بھی کرےگا۔ اگر سلام پھیرنے کے بعد اسے متروک رکن کاعلم ہواتو اگر وہ رکن آخری تشہد یاسلام ہوتو اسے ادا کرے اور سجدہ سہو کرکے سلام پھیر دے اور اگر رکوع یا سجدہ چھوٹ گیا ہوتومکمل رکعت ادا کرے اور سجدہ سہو کرے،بشرطیکہ سلام پھیرے ہوئے زیادہ وقت نہ گزرا ہو۔اگروقت زیادہ گزرگیا یا اس کا وضوٹوٹ گیا تو وہ دوبارہ مکمل نماز ادا کرے۔
[1] ۔صحیح البخاری، الاذان باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ ،حدیث 631۔ [2] ۔ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث نہیں ملی۔ [3] ۔سنن ابی داود الطھارۃ باب فرض الوضوء حدیث 61، وجامع الترمذی الطھارۃ باب ماجاء ان مفتاح الصلاۃ الطھور حدیث 3۔