کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 101
"مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ""مشرق اور مغرب کے درمیان قبلہ ہے۔"[1] واضح رہے کہ آپ کادرج بالا فرمان اہل مدینہ کے لیے اور ان لوگوں کے لے ہے جن کی سمت اہل مدینہ کے مطابق ہے،البتہ جو لوگ کعبہ کی مشرق اور مغرب والی سمتوں میں رہتے ہیں ان کاقبلہ جنوب اور شمال کے درمیان ہے۔ (12)۔استقبال قبلہ کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: " وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ" " اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔"[2] اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمان زمین پر ہو یا فضا میں ،جنگل میں ہویا سمندر میں،مشرق میں ہو یا مغرب میں،شمال میں ہو یا جنوب میں،بہرصورت نماز میں کعبہ کی جانب رخ کرنا ہوگا،البتہ اگر کوئی شخص استقبال قبلہ سے عاجز ہو جیسے بندھا ہوا کوئی شخص جو کعبہ کی طرف چہرہ نہ کرسکتا ہوتو وہ حسب طاقت کوشش کرکے نماز ادا کرے کیونکہ اس کی بے بسی کی وجہ سے استقبال کعبہ کی شرط ختم ہوجائے گی۔اس پر اہل علم کااجماع ہے۔ (13)۔اسی طرح گھمسان کی جنگ ہویا سیلاب،آگ،درندے یادشمن کاخوف ہویا ایسا مریض ہوجو قبلہ رخ ہونے کی طاقت نہ رکھتا ہویہ لوگ حسب حال نماز ادا کرلیں،اگر قبلہ کی طرف رخ نہ بھی ہوتو ان کی نماز ہوجائے گی کیونکہ یہ حضرات استقبال کعبہ کی شرط کو قائم رکھنے سے عاجز ہیں،لہذا یہ شرط ان کے حق میں ساقط ہے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: "فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ" "جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔"[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: "وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ" "جب میں تمھیں کسی کام کا حکم دوں تو تم حسب استطاعت اس کو ادا کرو۔"[4] حدیث شریف میں ہے:" صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حالت خوف میں جیسے بھی ممکن ہوتا نماز ادا کرلیتے تھے ،چاہے
[1] ۔جامع الترمذی ،الصلاۃ، باب ماجاء ان ما بین المشرق والمغرب قبلۃ، حدیث 342۔344۔ وسنن ابن ماجہ، اقامۃ الصلوات، باب القبلۃ ،حدیث 1011۔ [2] ۔البقرۃ:2/144۔ [3] ۔التغابن 64/16۔ [4] ۔صحیح البخاری، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم، حدیث 7288،وصحیح مسلم ،الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر ،حدیث 1337 ومسند احمد 2/258۔