کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 99
اِن سب احادیث سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ تہجد تین طرح سے ادا فرمائی ہے۔ایک یہ کہ ساری نماز ہی کھڑے ہو کر پڑھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمر بھر کا معمول تھا،سوائے آخری دو ایک سالوں کے،دوسرے یہ کہ کچھ نماز کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر ادا کی اور تیسرے یہ کہ ساری نماز ہی بیٹھ کر پڑھی،لہٰذا نفلی نماز میں حسب موقع یہ تینوں شکلیں جائز ہیں۔
نیز اِن احادیث سے اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کا عمل آخری عمر کاہے اور یہ بلاوجہ بھی نہیں،لہٰذا نو عمر بچوں اور جوانوں کو نفلی نمازیں بیٹھ کر نہیں پڑھنی چاہییں۔یہی حبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے کا تقاضا ہے۔نمازِ پنج گانہ کے درمیان یا آخر میں جو نوافل ہیں،اُن میں سے زیادہ تر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس انداز سے ثابت نہیں ہیں جیسا کہ آج کل انھیں اجزاے نماز بنا دیا گیا ہے۔اگر ثابت مان بھی لیا جائے تو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نوافل بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے،جیسا کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما کے ارشادات سے پتا چلتا ہے۔جبکہ بعض لوگوں نے یہ معمول ہی بنا رکھا ہے کہ نماز پڑھتے پڑھتے ظہر و مغرب کے آخر،نمازِ عشا کی آخری دو سنتوں کے بعد اور نمازِ وتر کے بعد دو نفل پڑھنے کی باری آئے تو بیٹھ جاتے ہیں،حالانکہ نوافل میں قیام کی اہمیت و تاکید کا اندازہ گذشتہ صفحات میں ذکر کی گئی احادیث سے بہ خوبی کیا جا سکتا ہے۔
نمازِ وتر کے بعد نوافل اور قیام:
وتر کے بعد نفلی نماز پر مواظبت ویسے ہی بعض احادیث کی رُو سے ٹھیک نہیں،جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((اِجْعَلُوْا آخِرَ صَلَاتِکُمْ بِاللَّیْلِ وِتْرًا))[1] ’’اپنی رات کی آخری نماز،وتر کو بناؤ۔‘‘
البتہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث سے پتا چلتا ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات نمازِ وتر کے بعد بھی بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھ لیا کرتے تھے،لیکن وہ بھی کس طرح؟وہ فرماتی ہیں:
((ثُمَّ یُوْتِرُ ثُمَّ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ))
[1] صحیح البخاري(2/ 566)رقم الحدیث(998)صحیح مسلم(3/ 6/ 32)صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(1275)صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(1588)