کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 90
عمل کرتا تھا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھو جب تک میں اس کی روح قبض نہ کر لوں یا اسے شفا نہ دے دوں۔‘‘ 5۔ اسی مفہوم و معنی کا ایک اثر بھی مسند احمد میں حسن درجے کی سند سے مروی ہے جس میں ابوالاشعث صنعانی بیان کرتے ہیں کہ وہ صبح کے وقت مسجدِ دمشق میں گئے اور دوپہر کو جب وہاں سے نکلے تو دیکھا کہ شداد بن اوس اور صنابحی کہیں جا رہے ہیں۔میں نے پوچھا کہ اللہ تم پر رحم فرمائے!کدھر کا ارادہ ہے؟تو انھوں نے بتایا کہ یہاں ہمارا ایک مسلمان بھائی بیمار ہے،ہم اُس کی عیادت کے لیے جا رہے ہیں۔میں بھی ان کے ساتھ ہی چل دیا۔جب ہم اس بیمار آدمی کے پاس پہنچے تو ان دونوں نے اس سے(خیر یت دریافت کرتے ہوئے)پوچھا کہ تم نے کس حال میں صبح کی؟اس شخص نے جواب دیا:میں نے اللہ کی نعمتوں کے ساتھ صبح کی ہے،تو شداد نے اس سے کہا:تمھارے لیے گناہوں کے کفارے اور خطاؤں کے مٹائے جانے کی خوشخبری ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ((اَنَا قَیَّدْتُّ عَبْدِیْ وَابْتَلَیْتُہٗ وَاَجْرُوْا لَہٗ کَمَا کُنْتُمْ تُجْرُوْنَ لَہٗ وَہُوَ صَحِیْحٌ))[1] ’’میں نے اپنے بندے کو(بیماری میں)باندھا اور اس میں مبتلا کیا ہے،اس کے لیے اتنا ہی اجر و ثواب لکھتے رہو،جتنا تم اس وقت لکھتے تھے جب یہ تندرست تھا۔‘‘ ان سب احادیث و آثار کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ بیماری اور سفر کی وجہ سے مریض و مسافر سے قیام و استقبالِ قبلہ وغیرہ کے سلسلے میں جو کوتاہیاں سرزد ہوتی ہیں،اللہ تعالیٰ ان پر بھی انھیں پورا ثواب عطا فرماتا ہے۔ یکے از خصائصِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم: یہاں یہ بات بھی واضح کر دیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے۔اگر بیٹھ کر بھی پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ثواب میں کمی واقع نہیں ہوتی تھی،جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صَلَاۃُ الرَّجُلِ قَاعِدًا نِصْفُ الصَّلَاۃِ))
[1] إرواء الغلیل(2/ 247)