کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 769
جس میں محل شاہد کے الفاظ ’’رفع یدیہ و دعا‘‘ امام سیوطی کے تسامح سے یا کسی کاتب کے سہو سے نص حدیث میں نقل ہو گئے ہیں،ورنہ خود مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ الفاظ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔نیز یہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ کے علاوہ سنن ابو داود،ترمذی،نسائی،مسند احمد،سنن دارقطنی،بیہقی،صحیح ابن حبان،صحیح ابن السکن،مستدرک حاکم،مسند طیالسی،معرفۃ الصّحابۃ لابن مندہ،اسد الغابۃ،طحاوی اور دارمی میں بھی اسی سند کے ساتھ مذکور ہے،مگر کسی کتاب میں بھی اس روایت میں ’’رفع یدیہ ودعا‘‘ کے الفاظ نہیں پائے جاتے۔[1] اس ہیئت کے جواز پر جو صحیح احادیث روایت کی جاتی ہیں،ان کا تعلق دوسرے اوقات کی ہنگامی دعاؤں سے ہے،جو مروّجہ پنج وقتہ دعا پر فٹ نہیں آتیں۔مانعین اجتماعی دعا سفر السعادۃ فیروز آبادی،زاد المعاد ابن قیم،سبل السلام امیر صنعانی اور فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی جو عبارتیں پیش کرتے ہیں،جن سے مطلقاً انکار مترشح ہوتا ہے،حضرت العلام نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے ’’دلیل الطالب‘‘ میں ان کے مفہوم کی تعیین کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’مراد نفی دوام ست بہیئت کذائی الیوم‘‘۔(1/ 323) ’’اس نفی سے مراد آج کل کی مروّج اجتماعی دعا پر ہمیشگی کی نفی ہے۔‘‘ ’’واِلاّ دعاء بعد از فریضہ ثابت ست کما تقدم۔‘‘[2] ’’ورنہ فرضوں کے بعد دعا کرنا ثابت ہے،جیسا کہ تفصیل گزری ہے۔‘‘ الغرض اجتماعی دعا پر دوام اور اس کا التزام سنت سے ثابت نہیں،بلکہ اقرب الیٰ السنہ انداز یہ ہے کہ کبھی ہاتھ اٹھا کر،کبھی بغیر ہاتھ اٹھائے،کبھی اجتماعی شکل میں اور کبھی انفرادی طور پر دعا کی جائے اور بالالتزام دعا نہ کرنے پر تشویش کا شکار نہ ہوں۔جو شخص ’’من حیث الامام‘‘ کبھی کبھی ایسا کرتا ہے تو اس پر نکیر بھی نہیں کرنی چاہیے۔یہی ہے: ’’خَیْرُ الاُْمُوْرِ اَوْسَطُھَا‘‘[3] وََفَّقَنَا اللّٰہُ لِکُلِّ خَیْرٍ وَتَقَّبَلَہٗ مِنَّا۔
[1] مشکاۃ المصابیح(1/ 306 وحسّنہ الالباني) [2] مشکاۃ المصابیح(1/ 306 وحسّنہ الالباني)صحیح الترغیب والترہیب(1/ 188)