کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 762
((سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ خَلْقِہٖ))[1] ’’اللہ کی اتنی تسبیحات کہ جتنی اس کی مخلوقات کی تعدا د ہے۔‘‘ ایسے ہی سنن ابو داود و ترمذی میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں وہ کسی عورت کے پاس گئے جس کے سامنے کھجور کی گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی تھیں،جن پر وہ تسبیح کر رہی تھیں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تجھے ایسا وظیفہ نہ بتاؤں جو اس سب کچھ سے آسان یا افضل ہے۔تب یہ وظیفہ بتایا: ((سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ مَا خَلَقَ۔۔۔الخ))[2] ’’پاک ہے اللہ،اس کی اتنی تسبیحات جتنی تعداد میں اس نے مخلوقات بنائیں۔‘‘ ان دونوں روایات کی بنا پر امام شوکانی رحمہ اللہ اور علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے تسبیح کی موجودہ شکل کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔امام سیوطی رحمہ اللہ نے تو صرف اس تسبیح کے موضوع پر مستقل ایک رسالہ لکھا ہے،جس کا نام انھوں نے ’’المِنحۃ فی السّبحۃ‘‘ رکھا ہے اور اس میں انھوں نے کئی آثار بھی نقل کیے ہیں،[3] جن سے تسبیح کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ مسند الفردوس دیلمی میں ایک مرفوع روایت ہے: ((نِعْمَ الْمُذَکِّرُ السُّبْحَۃُ))[4] ’’یاد دلانے والی بہترین چیز تسبیح ہے۔‘‘ اس روایت سے بھی جواز پر استدلال کیا گیا ہے،لیکن تسبیح کے استعمال کے جواز پر دلالت کرنے والی ان تینوں روایات پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے اور بعض نقادانِ فن حدیث نے انھیں ضعیف اور اس آخری روایت کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ا ن نقادوں اور محدثین کرم میں سے امام دارقطنی،ابن عساکر،خطیب بغدادی،امام ذہبی،امام ترمذی،ابن معین،ابن عدی اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہم اللہ کے اسماے گرامی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان روایات کے ضعف کے ساتھ ساتھ بعض آثار ایسے بھی ہیں،جن سے ان روایات کے
[1] بلوغ المرام مع السبل(2/ 4/ 159)مشکاۃ المصابیح(2/ 1210) [2] مشکاۃ المصابیح(2/ 1210) [3] مشکاۃ المصابیح(157)