کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 750
1 اس سلسلے میں سب سے پہلے جس وظیفہ یا دعا کا ذکر آتا ہے،وہ ہے تکبیر،یعنی اللّٰه اکبر کہنا۔چنانچہ صحیح بخاری و مسلم اور سنن ابو داود و نسائی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ((کُنْتُ اَعْرِفُ اِنْقِضَائَ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِالتَّکْبِیْرِ))[1] ’’میں اللہ اکبر کی آواز سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مکمل ہونے کا پتا لگاتا تھا۔‘‘ صحیح بخاری و مسلم ہی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود میں جب لوگ فرض نماز سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے ذکر کیا کرتے تھے۔[2] لہٰذا فرض نمازوں کا سلام پھیرتے ہی تمام نمازیوں کو بیک زبان،بآوازِ بلند اللہ اکبر کہنا چاہیے۔مگر افسوس کہ آج اکثر لوگ اس سنّت سے غافل ہیں۔ 2 اللہ اکبر کے بعد تین مرتبہ((اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ))کہنا اور پھر((اَللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ))کہنا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔جیسا کہ صحیح مسلم،بلکہ بخاری شریف کے سوا صحاح ستہ کی تمام کتب اور دارمی و ابن خزیمہ میں حضرت ثوبان رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو تین مرتبہ ’’أستغفر اللّٰه‘‘ کہتے اور پھر یہ دعا پڑھتے: ((اَللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ))[3] ’’اے اللہ!تو ہمہ سلامتی ہے اور تجھ ہی سے سلامتی ملتی ہے۔تو ذاتِ بابرکات اور صاحبِ جلال و اکرام ہے۔‘‘ کتبِ حدیث میں تو یہ دعا صرف اتنی ہی ہے،لیکن اس میں جو:’’وَاِلَیْکَ یَرْجِعُ السَّلَامُ،فَحَیِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلاَمِ وَاَدْخِلْنَا دَارَالسَّلَامِ‘‘(اور تیری ہی طرف سلام لوٹ جاتا ہے،ہمیں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ اور ہمیں دارالسلام میں داخل کر)کے الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے،ان کی کوئی اصل نہیں۔بلکہ ’’تصحیح المصابیح‘‘ میں شیخ جزری رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے کہ یہ الفاظ من گھڑت ہیں۔[4] لہٰذا صرف انہی الفاظ پر اکتفا کرنا چاہیے،جو صحیح مسلم وغیرہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔