کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 74
ہو جانے کے بعد اس کو نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے،کیونکہ حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ رضی اللہ سے مروی ہے: ((کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم فِیْ سَفَرٍ فِیْ لَیْلَۃٍ مُظْلِمَۃٍ فَلَمْ نَدْرِ اَیْنَ الْقِبْلَۃُ فَصَلّٰی کُلُّ رَجُلٍ حِیَالَہٗ،فَلَمَّا اَصْبَحْنَا ذَکَرْنَا ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَنَزَلَ﴿فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ))[1] ’’ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور وہ ایک انتہائی تاریک رات تھی،ہمیں یہ معلوم نہیں ہوا کہ قبلہ کس طرف ہے،لہٰذا ہر شخص نے جدھر چاہا،اُدھر ہی منہ کر کے نماز پڑھ لی۔جب صبح ہوئی تو ہم نے یہ سارا ماجرا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا،اس پر(سورۃ البقرہ کی آیت 115)نازل ہو گئی(جس میں ارشادِ الٰہی ہے:)’’تم جدھر بھی منہ کرو اللہ(کا قبلہ)اُدھر ہی ہے۔‘‘ مسند طیالسی میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا ماجرا سن کر فرمایا:((مَضَتْ صَلَاتُکُمْ))’’تمھاری نماز ہو گئی‘‘ پھر{فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ﴾والی آیت نازل ہوئی۔[2] اس حدیث کی سند پر کچھ کلام ہے،لیکن دیگر شواہد و روایات کی بنا پر اسے حسن درجے کی حدیث قرار دیا گیا ہے۔اُن شواہد میں سے ایک دارقطنی،بیہقی،معجم طبرانی اور مستدرک حاکم میں حضرت جابر رضی اللہ سے مروی ہے،جس میں وہ بیان فرماتے ہیں: ((کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فِیْ مَسِیْرٍ اَوْ سَرِیَّۃٍ،فَاَصَابَنَا غَیْمٌ فَتَحَرَّیْنَا وَاخْتَلَفْنَا فِی الْقِبْلَۃِ)) ’’ہم ایک عام سفر یا جہاد کی مہم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے،بادل کے اندھیرے کی وجہ سے ہمیں قبلے کی صحیح سمت معلوم نہ ہوئی،بلکہ اس سلسلے میں ہماری آرا مختلف ہو گئیں۔‘‘ آگے وہ بیان فرماتے ہیں:ہم میں سے ہر کسی نے علاحدہ علاحدہ جہتوں میں نماز پڑھ لی اور ہر کسی نے کچھ نشانیاں رکھ لیں تا کہ بعد میں معلوم ہو سکے کہ کس نے کس طرف منہ کر کے نماز پڑھی تھی،جب صبح ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ ہم میں سے کسی نے بھی صحیح سمتِ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز
[1] صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(284)سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(1020) [2] إرواء الغلیل(2/ 323)