کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 721
رَکْعَتَیْنِ حَتَّی قَبَضَہُ اللّٰہُ،ثُمَّ صَحِبْتُ عُثْمَانَ فَلَمْ یَزِدْ عَلیٰ رَکْعَتَیْنِ حَتّٰی قَبَضَہُ اللّٰہُ))
’’بھتیجے!اگر مجھے سنّتیں پڑھنا ہی ہوتیں تو پھر میں نماز کو پورا ہی کیوں نہ پڑھ لیتا؟میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھا کرتے تھے،یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح طاہر قبض کر لی گئی۔میں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کے ساتھ بھی سفر کیے ہیں،وہ بھی دو رکعتوں سے زیادہ نماز نہیں پڑھا کرتے تھے،یہاں تک کہ ان کی روحِ عنصری قبض کر لی گئی۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے ساتھ بھی سفر کیے ہیں،وہ بھی سفر میں دو رکعتوں سے زیادہ نماز نہیں پڑھا کرتے تھے،یہاں تک کہ ان کی روح عنصری بھی قبض کر لی گئی،پھر میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ کے ساتھ بھی سفروں میں رہا ہوں،وہ بھی دو رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے،یہاں تک کہ ان کی روح عنصری قبض کر لی گئی۔‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ کا اپنے عہدکے چھے یا آٹھ سال بعد نماز کو مکمل پڑھنا وارد ہوا ہے،اُس کی اس سے نفی نہیں ہوتی،بلکہ یہ اکثریت کی بنا پر ہے۔یہ بھی مذکور ہے کہ جب ان سے ان کے مکمل نماز پڑھنے کا ذکر ہوا تو انھوں نے مذکورہ آیت:﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ۔۔۔﴾پڑھ دی تھی۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب امام کے ساتھ ہوتے تو چار اور جب اکیلے ہوتے تو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔[1]
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔۔۔﴾[الأحزاب:21][2]
’’تمھارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں۔۔۔۔‘‘
عام نفل نمازیں:
امام نووی رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ اور بعض دیگر اہل
[1] فتح الباري(2/ 62۔561)الفتح الرباني(5/ 111)نیل الأوطار(2/ 3/ 210)
[2] نیل الأوطار أیضاً۔
[3] الفتح الرباني(5/ 111)نیل الأوطار(2/ 3/ 209)
[4] نیل الأوطار أیضًا و إرواء الغلیل(3/ 23)