کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 713
ہیں کہ آج تو سفر ہی انتہائی آسان ہو گئے ہیں،لہٰذا قصر کی کیا ضرورت ہے!ان کا یہ کہنا نہ صرف یہ کہ مزاجِ شریعت سے موافقت نہیں رکھتا،بلکہ مذاہب اربعہ کے مذکورہ اتفاق کے بھی خلاف ہے۔لہٰذا سفر میں قصر کی رخصت پر عمل کرنا چاہیے۔بعض ائمہ کے نزدیک تو قصر واجب ہے اور افضل بھی۔جیسا کہ تفصیل گزری ہے۔
آغازِ قصر:
نماز قصر پڑھنے کا آغاز کہاں سے کیا جائے گا؟
اس سلسلے میں بھی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعیین ثابت نہیں۔البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک یہ تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستی یا آبادی سے نکل جاتے تو قصر شروع فرما دیتے تھے۔چنانچہ صحیح بخاری و مسلم،ابو داود،ترمذی،نسائی،مسند احمد،ابن ابی شیبہ اور بیہقی میں حضرت انس رضی اللہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعتیں پڑھیں۔[1]
امام ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مجھے معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سفر پر نکلنے سے پہلے ہی نماز قصر کی ہو۔اس بات پر اجماع ہے کہ مسافر جب اپنی بستی کے مکانوں سے باہر نکل جائے تو قصر شروع کرے۔یہی جمہور علماء امت کا مسلک ہے۔[2] بعض جزوی امور سے قطع نظر ائمہ اربعہ کا بھی اس پر اتفاق ہے۔[3]
مدتِ قصر:
اب رہی یہ بات کہ ایک شخص سفر پر نکلے اور اسے چند دن راستہ طے کرتے لگ جائیں اور پھر جہاں پہنچے،وہاں اس کا کچھ مدت ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو دورانِ سفر تو وہ قصر ہی کرتا جائے گا،لیکن جب وہ کہیں جا کر ٹھہر جائے تو وہاں کب تک قصر پڑھی جا سکتی ہے اور کتنے دنوں سے زیادہ قیام کرنے کا ارادہ ہو تو پھر پوری نماز پڑھی جائے گی؟
[1] صحیح البخاري مع الفتح(2/ 565۔569)