کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 67
پڑھی ہی نہیں ہے۔تیسری مرتبہ کے بعد یعنی تین مرتبہ نماز پڑھ کر دکھانے اور اس کے صحیح نہ نکلنے کے بعد چوتھی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسے نماز کا حکم فرمانے پر اس شخص نے عرض کی:’’عَلِّمْنِیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!(میں تو ایسی ہی نماز پڑھ سکتا ہوں)اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی مجھے صحیح طریقۂ نماز سکھلا دیجیے۔‘‘ سبحان اللہ!استاد و شاگرد یا سائل و مفتی ہر دو جانب ہی کمال ہے۔اخلاقِ عالیہ کا اتنا بلند مظاہرہ ہے اور تحمل و بردباری ہے کہ شاید و باید۔آج کا ماحول ہوتا اور خشک قسم کا کوئی واعظ و مفتی ہوتا تو سائل یا مقتدی کے اس طرح بار بار نماز خراب کرنے پر اس کے گلے پڑ جاتا اور کوستا کہ تم اتنے بڑے ہو گئے ہو اور آج تک نماز صحیح طرح سے نہیں پڑھ سکتے۔پھر اگر وہ سائل بھی آج جیسے عام مقتدیوں میں سے کوئی ہوتا تو تیسری یا چوتھی مرتبہ پڑھی گئی نماز کو بھی غیر صحیح قرار دینا تو درکنار،محض دوسری مرتبہ پھر نماز کا حکم ملنے ہی پر چھوٹ کر گلے پڑ جاتا اور کئی الٹی سیدھی سناتا۔مگر وہاں جانبین یا طرفَین ہی اعلیٰ اخلاقی اقدار،صبر و ضبط اور تحمل و بردباری جیسی عمدہ صفات سے مزین ہیں۔بارہا نماز پڑھنے پر بھی جب نماز صحیح نہ نکلی تو سٹپٹانے کے بجائے اپنے قصورِ علم کا صاف اعتراف کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی صحیح طریقہ سکھلا دیجیے۔تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اِذَا قُمْتَ اِلَی الصَّلَاۃِ فَاَسْبِغِ الْوَضُوْئَ ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ فَکَبِّرْ))[1] ’’ جب تم نماز پڑھنے لگو تو پہلے اچھی طرح وضو کرو اور پھر قبلہ رو ہو جاؤ اور تکبیرِ تحریمہ کہو۔‘‘ اس حدیث میں مزید تفصیل بھی ہے جس میں نماز ادا کرنے کا صحیح طریقہ بیان ہوا ہے جسے ہم آیندہ صفحات میں صحیح طرح سے نماز نہ پڑھ سکنے والے صحابی کی حدیث کے حوالے سے موقع بہ موقع ذکر کرتے رہیں گے،لیکن سرِدست اس حدیث کے ان ابتدائی الفاظ ہی پر اکتفا کر رہے ہیں،کیونکہ ہمارے موضوع سے متعلقہ مسئلہ انہی الفاظ میں آ گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے صحیح نماز پڑھنے کے لیے قبلہ رُو ہونے کا حکم فرمایا تھا۔[2]
[1] صحیح البخاري(1/ 502)میں تعلیقاً اور ’’کتاب الاستئذان‘‘ میں موصولاً۔صحیح مسلم(2/ 4/ 106،107) [2] اسی مفہوم و معنی کی ایک حدیث جزء القراء ۃ امام بخاری،سنن ابی داود و سنن النسائی،مستدرک حاکم،کتاب الامّ شافعی اور مسند احمد میں حضرت رفاعہ بن رافع البدری رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اور اس کی سند بھی امام بخاری رحمہ اللہ کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔صحیح الجامع الصغیر(1/ 1/ 264)إرواء الغلیل(1/ 321،322)