کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 655
((قُوْلُوْا:اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ۔۔۔وَالسَّلَامُ کَمَا عَلِمْتُمْ))[1] ’’یہ کہو:اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ۔۔۔سلام کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہو چکا ہے۔‘‘ چوتھی اور پانچویں دلیل: صحیحین،سنن اربعہ اور مسند احمد میں حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ سے[2]،اسی طرح صحیحین،سنن ترمذی،بیہقی اور مسند احمد میں بھی انہی حضرت کعب رضی اللہ سے مروی حدیث میں بھی ہے کہ ایک آدمی نے سلام کا طریقہ معلوم ہونے کا کہہ کر درود شریف کا طریقہ پوچھا تو اسے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((قُوْلُوْا:اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ۔۔۔الخ))[3] ’’یہ کہو:’’اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّد۔۔۔‘‘ الخ۔‘‘ دیگر دلائل: ا س طرح کی دس حدیثیں اور بھی مروی ہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے چار آثار اور تابعین رحمہ اللہ کے دو آثار ان پر مستزاد ہیں۔اس کے علاوہ امام شوکانی و ابن قیم اور حافظ ابن حجر کی تحقیقات،امام شافعی،احمد بن حنبل،اسحاق بن راہویہ کے اقوال،امام ابن قدامہ،علامہ یمانی،علامہ شمس الحق عظیم آبادی اور شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی کی تصریحات،چار فقہاے احناف کے بیانات،امام ابن العربی،علامہ زمخشری،امام دارقطنی،امام ابن کثیر اور علامہ البانی رحمہم اللہ کے اختیارات بھی قائلینِ وجوب کے حق میں ہیں۔[4] ان سب اہل علم کے اقوال نقل کریں تو بات لمبی ہو جائے گی،لہٰذا یہاں صرف اشارے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔[5] قائلینِ عدم وجوب: قعدئہ ثانیہ میں درود شریف کو غیر واجب قراردینے والوں میں امام ابو حنیفہ،مالک،ثوری،اوزاعی اور دیگر فقہا ہیں۔عام حالات میں ان سب کے نزدیک بھی درود شریف پڑھنا فرض و واجب ہے۔اختلاف صرف نماز میں پڑھنے کے واجب یا غیر واجب ہونے میں ہے۔ان کے نزدیک یہ سنت ہے۔ عدم وجوب کے دلائل: نماز میں درود شریف کو غیر واجب بلکہ سنت کہنے والے بھی اپنے حق میں متعدد دلائل پیش کرتے ہیں۔ پہلی حدیث: سنن ابو داود،ترمذی،دارمی،دارقطنی اور مسند احمد میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں تشہد کے الفاظ کے بعد ارشاد ہے: ((فَاِذَا قُلْتَ ہٰذَا(اَوْ قَضَیْتَ ہٰذَا)فَقَدْ قَضَیْتَ الصَّلَاۃَ،فَاِنْ شِئْتَ اَنْ تَقُوْمَ فَقُمْ،وَاِنْ شِئْتَ اَنْ تَقْعُدَ فَاقْعُدْ))[6] ’’جب تم نے تشہد پڑھ لیا تو نماز پوری کر لی،اب چاہو تو اُٹھ جاؤ اور چاہو تو بیٹھے رہو۔‘‘ جواب: قائلینِ وجوب کہتے ہیں کہ اس حدیث میں وارد مذکورہ الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہیں،بلکہ مدرج یا الحاقی ہیں،جو روات کی غلطی سے حدیث کا جزو بن گئے ہیں،دراصل یہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما کے الفاظ ہیں،جیسا کہ امام دارقطنی،امام ابوبکر الخطیب اور دیگر اہل علم کی تصریحات موجود ہیں،لہٰذا ان سے استدلال صحیح نہیں۔[7] دوسری حدیث: سنن ابو داود و ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ سے مروی حدیث میں ہے: ((اِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ مِنْ آخِرِ السُّجُوْدِ فَقَدْ مَضَتْ صَلَاتُہٗ،اِذَا ہُوَ اَحْدَثَ))[8] ’’اگر آخری سجدے سے سر اٹھا لیا اور اس کا وضو ٹوٹ گیا تو اس کی نماز ہو گئی۔‘‘
[1] بحوالہ عون المعبود(3/ 281)