کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 652
ایسے مسائلِ نماز میں سے تشہد میں انگشتِ شہادت سے اشارہ کرنا اور اسے حرکت دینا بھی ہے۔متعدد احادیث کی بنا پر اس اشارے کی مشروعیت پر تو تمام علما و فقہا کا اتفاق ہے،جیسا کہ پہلے مختلف حوالوں سے تفصیل ذکر کی جا چکی ہے،البتہ ماضی قریب تک اس کی شکل تمام مذاہب میں(سوائے مالکیہ کے)یہی تھی کہ ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ پر پہنچ کر نمازی انگلی اٹھائے اور پھر اُسے گرا دے۔جبکہ دَور حاضر تک متعدد کتبِ حدیث شائع ہوجانے اور بعض اہل علم کے فن حدیث میں غیرمعمولی تبحر حاصل کرلینے سے بعض مسائل کی قدیمی شکل میں فرق متحقق ہوا ہے۔اگر یہ فرق محض قیاس و رائے کی رو سے پیش کیا جاتا تو قابل التفات و لائقِ اعتنا نہ ہوتا،لیکن ان مسائل میں عموماً ان کی بنیاد کسی نہ کسی نص پر ہے،اس لیے ان کی رعایت کیے بغیر بھی چارہ نہیں۔[1] لہٰذا محض متقدمین علما کی تحقیق پر اڑے رہنے کے بجائے تحقیقاتِ جدیدہ میں واردہ نصوصِ صحیحہ سے ثابت شدہ مسائل کو اپنا لینا چاہیے،کیونکہ ائمہ اربعہ سمیت کبار فقہا اور تمام علماء حدیث کا یہی مسلک ہے کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو اُسے لے لیا جائے اور اس پر عمل کر لیا جائے۔یہ انتظار نہ کیا جائے کہ پہلے اس پر کسی نے عمل کیاہے یا نہیں،کیونکہ حدیث و سنت کسی کے عمل سے ثابت نہیں ہوتی،بلکہ ا س کے ثبوت پر عمل کیا جاتا ہے اور یہی اصولی قاعدہ ہے۔ درود شریف سے متعلقہ مسائل: بہرحال جب تشہد سے فارغ ہوں تو پہلے قعدے کی طرح دوسرے قعدے میں بھی درود شریف پڑھنا چاہیے،جس کے متعدد صیغے صحیح اسانید کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں،جن میں سے نو صیغے ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں۔ان صیغوں کے آخر میں یہ بھی ذکر آ رہا ہے کہ ان میں سے کسی بھی صیغے کو پڑھ لیں صحیح ہے۔البتہ مختلف ائمہ و علما کے نزدیک افضل صیغہ بھی الگ الگ ہے،جیسا کہ تفصیلی تذکرہ آ رہا ہے۔درود شریف میں وارد لفظ ’’آل‘‘ کی تفصیلی تفسیر و تشریح،درود شریف میں وارد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تشبیہ کا راز،درود شریف کے الفاظ میں کمی بیشی یا تغیر و تبدل اور خصوصاً درود شریف میں ’’سیدنا و مولانا‘‘ جیسے الفاظ کے اضافے کے صحیح نہ ہونے کے بارے میں تفصیلی بحث درود شریف سے متعلق ہماری مستقل کتاب ’’درودشریف،فضائل و مسائل‘‘ میں آگئی ہے،اسے وہاں ملاحظہ فرمائیں۔قعدئہ اولیٰ کے ضمن میں یہ بھی ذکر ہو چکا ہے کہ قعدئہ اولیٰ میں درود شریف پڑھنا
[1] المجموع(3/ 454) [2] المرعاۃ و عون المعبود أیضًا وتحقیق زاد المعاد(1/ 238) [3] المیزان(3/ 644) [4] التذکرۃ(1/ 165)