کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 635
درمیان والی انگلی کے حلقے کو سلام پھیرنے تک بنائے رکھیں اور انگشتِ شہادت کو کھلا رکھیں۔[1]
3۔ حنابلہ کے نزدیک تشہد میں جہاں جہاں بھی لفظ جلالت یعنی ’’اللّٰہ‘ اللّٰہمّ‘ رَبِّ،رَبَّنا‘‘یا کوئی بھی اللہ کا ذاتی یا صفاتی نام آئے،وہیں وہیں انگلی کو اٹھا کر اُس کی وحدانیت کا اشارہ کیا جائے۔[2]
4۔ مالکیہ کا مذہب یہ ہے کہ شروع تشہد سے لے کر آخر تک‘ یعنی سلام پھیرنے تک انگلی کو اٹھاتے اور گراتے رہنا چاہیے۔[3]
تین مواقع یا مقامات:
ان چاروں فقہی مکاتبِ فکر کے ائمہ و فقہا کی ان تصریحات سے اشارے کے موقع و محل کے بارے میں تین باتیں سامنے آتی ہیں:
1۔ تشہد میں وارد صرف کلمۂ شہادت کے جز ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کہتے وقت محض ایک مرتبہ انگلی اٹھانا،جیسا کہ معمولی جزوی فرق کے ساتھ یہ احناف اور شافعیہ کا مسلک ہے۔
2۔ پورے تشہد یا قعدے کے دوران میں جب جب بھی اللہ کا کوئی نام آئے،تب تب انگلی اٹھانا،جیسا کہ حنابلہ کا مسلک ہے۔
3۔ پورے قعدے کے دوران میں وقفے وقفے سے مسلسل انگلی کو اٹھاتے گراتے رہنا،جیسا کہ مالکیہ کا مسلک ہے۔
1 ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘کے ساتھ تخصیص والا حنفی و شافعی مسلک:
ان تینوں میں سے پہلے کے لیے دلیل کے طور پر کوئی صحیح و صریح حدیث پیش نہیں کی جاتی،بلکہ محض عقل کی روشنی میں کہا جاتا ہے کہ جب انسان زبان سے اللہ کی وحدانیت کا اقرار ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کہہ کر کرتا ہے تو مناسب ہے کہ اسی وقت انگلی کو اٹھا کر بھی توحید الٰہی کی شہادت دے دے۔اس طرح اس کے قول و فعل میں یگانگت اور باہم مطابقت پیدا ہو جائے گی،لیکن اس بات کا پتا کسی حدیث سے نہیں چلتا کہ انگلی سے اشارہ صرف ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کہتے وقت ہی کرنا چاہیے،پہلے یا بعد میں نہیں۔
[1] صلاۃ الرسول(ص: 272)
[2] تحفۃ الأحوذي(2/ 185)
[3] شرح صحیح مسلم(3/ 5/ 92)نیز دیکھیں : سبل السلام(1/ 1/ 188)النیل(2/ 3/ 136)
[4] سنن البیہقي(2/ 133)