کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 603
ایک مرتبہ لمحہ بھر کے لیے بیٹھ جائے،جسے ’’جلسۂ استراحت‘‘ کہا جاتاہے۔اس کی مشروعیت و سنیت کے بارے میں دوسری رکعت کے مسائل کے ضمن میں قدرے تفصیل سے بحث گزر چکی ہے،لہٰذا یہاں اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ چوتھی رکعت: اس جلسۂ استراحت کے بعد کھڑے ہو جائیں اور ہاتھ باندھ کر تعوذ و تسمیہ یا صرف ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم‘‘ اور سورت فاتحہ پڑھیں نمازِ ظہر وغیرہ میں کچھ اضافی قراء ت بھی جائز ہے،جیسا کہ تیسری رکعت کے ضمن میں تفصیل گزری ہے۔ رکوع: بہرحال قیام سے فارغ ہو کر رفع یدین کرتے ہوئے رکوع کر لیں۔ قنوتِ نازلہ: یہاں اس بات کی طرف بھی آپ کی توجہ مبذول کرواتے جائیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت حالات،ہنگامی مصائب اور مظالم و مشکلات میں اگر کسی کے لیے پُر زور دعا یا بد دعا کرنا ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانچوں فرض نمازوں کی آخری رکعت میں رکوع سے اُٹھ کر((سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ۔۔۔))کے بعد ہاتھ اٹھا کر بلند آواز سے دعا یا بد دعا کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقتدی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آمین کہتے تھے۔ان خاص حالاتِ کے علاوہ عام ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قنوتِ نازلہ ثابت نہیں ہے۔ان باتوں کا تذکرہ جن احادیث میں ہے،ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔ حالات و مقامِ قنوت: 1۔ پہلی حدیث صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں حضرت انس رضی اللہ سے مروی ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: ((قَنَتَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم شَہْرًا یَدْعُوا عَلٰی رِعْلٍ وَ ذَکْوَانَ))[1] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا ایک مہینا دعا قنوتِ نازلہ فرمائی اور قبائلِ رعل و ذکوان کے
[1] جزء البخاري(ص: 37)سنن النسائي(2/ 141)سنن الدارقطني(1/ 121)سنن أبي داوٗد مع العون(3/ 47)سنن البیہقي(2/ 165)قال: و الحدیث صحیح عن عبادۃ عن النبيﷺ ولہ شواہد،و أخرجہ أیضًا في جزء القراء ۃ(ص: 44،49)وقال الشوکاني: أخرجہ أیضًا أحمد و البخاري في جزء القراء ۃ و صححہ ابن حبان و الحاکم،انظر: النیل(2/ 218) [2] جزء البخاري(ص: 27،37)سنن الدارقطني(1/ 121)