کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 599
کے موافق ہے،اس لیے صالح الاستدلال ہے۔ان تمام احادیث میں امام،منفرد اور مقتدی کو ہر نماز میں سورت فاتحہ اور اس سے زیادہ قرآن پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔پھر اس کو دوسرے فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خاص کر دیا گیا ہے کہ مقتدی جہری نماز میں صرف سورت فاتحہ پر اکتفا کرے،مزید کوئی سورت یا آیت نہ پڑھے۔یہ حکم خاص متعدد حدیثوں میں مذکور ہے۔ان میں سے زیادہ مشہور اور صریح سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ سے مروی حدیث ہے،جو حسب ذیل ہے: عَنْ زَیْدِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ حَرَامِ بْنِ حَکِیْمٍ وَ مَکْحُوْلٍ عَنْ رَبِیْعَۃَ الْاَنْصَارِیِّ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ۔۔۔فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم:((لَا یَقْرَأَنَّ اَحَدُکُمْ اِذَا جُہِرَ بِالقِرَائَ ۃِ اِلاَّ بِاُمِّ القُرآنِ۔۔۔))[1] ’’زید بن واقد،حرام بن حکیم،مکحول،ربیعہ انصاری اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’’جہری قراء ت کے وقت سورت فاتحہ کے سوا تم میں سے کوئی کچھ نہ پڑھے۔‘‘ حدیث مذکور اس بات پر دلیل صریح ہے کہ جب امام جہری قراء ت کرے تو مقتدی کو صرف سورت فاتحہ بالسر پڑھنا چاہیے،اس کے بعد خاموشی سے امام کی قراء ت سننے پر اکتفا کرے۔ اس کے شواہد اور ہم معنی روایات میں سے بعض یہ ہیں: عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصّامِتِ قَالَ:((صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم صَلَاۃً جَہَرَ فِیہَا فَقَرَأَ رَجُلٌ خَلْفَہٗ،فقال:((لَا یَقْرَأَنَّ اَحَدُکُمْ وَالاِمَامُ یَقْرَأُ اِلَّا بِاُمِّ القُرآنِ))[2] ’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جہری قراء ت والی نماز پڑھائی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کسی صحابی نے بھی قراء ت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب امام قراء ت کررہا ہو تو سورت فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھو۔‘‘
[1] التعلیق الممجد علی موطأ الإمام محمد(ص: 104)قدیمی کتب خانہ کراچی