کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 594
علامہ البانی رحمہ اللہ:
اسی سلسلے میں کبار محدثین میں سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم و مسند احمد اور دیگر کتب میں مروی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ والی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ آخری رکعتوں میں سورت فاتحہ کے علاوہ کچھ مزید آیات کی قراء ت بھی سنت ہے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ سمیت صحابہ کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔امام شافعی کا بھی یہی قول ہے اور اس میں نمازِ ظہر اور عصر میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔[1]
تین کبار علماء احناف:
بعض کبار علما و فقہا کا بھی یہی مسلک ہے۔چنانچہ متاخرین علماء احناف میں سے علامہ عبدالحی لکھنوی نے ’’التعلیق المُمجّد علی موطأ الإمام محمد‘‘ میں لکھا ہے:
’’وَلَوْ زَادَ عَلٰی ذَ ٰلِکَ(اَیْ عَلـٰی فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ)فِی الْاُخْرَیَیْنِ لَا بَأْسَ بِہٖ لِمَا ثَبَتَ فِی صَحِیْحِ مُسْلِمٍ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ رضی اللّٰه اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یَقْرَأُ فِی صَلَاۃِ الظُّہْرِ فِی الْاُوْلَیَیْنِ فِی کُلِّ رَکْعَۃٍ قَدْرَ ثَلَاثِیْنَ آیَۃً وَفِی الْاُخْرَیَیْنِ قَدْرَ خَمْسَ عَشَرَ آیَۃً))
’’اگر کوئی سورت فاتحہ سے کچھ زیادہ قراء ت آخری دو رکعتوں میں بھی کر لے تو کوئی مضائقہ نہیں،کیونکہ صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں تیس آیات کے برابر قراء ت کیا کرتے تھے اور آخری دو میں پندرہ آیات کے برابر۔‘‘
آگے وہ اپنے بعض اصحاب پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ وَأَغْرَبَ بَعْضُ اَصْحَابِنَا حَیْثُ حَکَمُوا عَلـٰی وُجُوْبِ سُجُوْدِ السَّہُوِ بِقِرَائَ ۃِ سُوْرَۃٍ فِی الْاُخْرَیََْیِن‘‘
’’ہمارے بعض اصحاب نے تو عجیب ہی رویہ اپنایا کہ انھوں نے فیصلہ دے دیا کہ آخری دو رکعتوں میں کسی سورت کی قراء ت پر سجدۂ سہو واجب ہو جاتا ہے۔‘‘
[1] انظر نصب الرایۃ(1/ 422)
[2] المنتقیٰ مع النیل(2/ 3/ 66)صحیح ابن خزیمۃ(1/ 256)سبل السلام(1/ 1/ 175)تحفۃ الأحوذي(2/ 217)